مودی جانے اور ان کے دیوتا؟

”بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ساڑھے چار سال کی طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیا‘ کیونکہ وہ میڈیا کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ انٹرویو کے سوالات پہلے سے فکس تھے یا نہیں؟ اس سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے‘ لیکن اتنا تو طے ہے کہ آج بھی مودی کے اندر کیمروں کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہے۔

وزیراعظم مودی نے اس انٹرویو میں خود کو سرکار سے اوپر دکھانے اور بتانے کی کوشش کی اور اپنی سرکار کو الگ تھلگ کرتے ہوئے ”میرا‘ مجھ سے اور میری کے ذریعے‘‘ جو جواب دئیے ہیں‘ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عوام کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین نہیں رکھتے‘ بلکہ خود ہی سرکار ہیں اور خود ہی جو چاہتے ہیں‘ وہ کرتے ہیں اور اس طرح ان کا ‘سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کا نعرہ‘ سرکار نے اندر بھی محض ایک فریب اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ۔مودی نے حالیہ انٹرویو کے دوران جس طرح سے ”میں ‘میرا‘ مجھے‘ میں نے اور میری کے ذریعے‘‘ سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ سرکار میں جو لوگ حصہ دار ہیں‘ وہ صرف دکھاوے کے لئے ہی ہیں۔ نریندر مودی جو چاہتے ہیں‘ وہی کرتے ہیں اور جو وہ چاہتے ہیں‘ وہی ہوتا ہے۔

وزیراعظم مودی اس سے پہلے موب لنچنگ( ہجوم کے ذریعے قتل) کے واقعات پر بھی اظہار خیال کر چکے ہیں‘ جس میں ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں گائے کی حفاظت نہیں کرتے‘ وہ لوگ دن کے اجالے میں‘ یہ سارے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ مودی نے گائے کے محافظوںکی ایک بڑی تعداد کو مشکوک بتاتے ہوئے ان کا ڈوزیئر بنانے کی اپیل بھی کی تھی‘ لیکن اس واقعے کو کم و بیش دو سال گزر چکے ہیں‘ ابھی تک شاید ہی کسی ریاست نے گائے کے محافظوں کا ڈوزیئر تیار کیاہو۔ المیہ تو یہ ہے کہ جو لوگ گائے کے تحفظ کے نام پر یوگی سرکار سے پیسے لے رہے ہیں‘ ان کی سرپرسرستی میں ہی گائے کی ایک بڑی تعداد مر ر ہی ہے‘ یعنی گائے کے نام پر اپنی جیبیں تو بھری جا رہی ہیں‘ لیکن گائے کے تحفظ کا دعویٰ محض دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو مودی سرکار ہو یا یو گی سرکار یا کوئی بھی سرکار‘ جو بی جے پی اقتدار والی ریاستیں ہیں‘ وہاں صرف اور صرف گائے گوبر کے نام پر سیاست ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے‘ لیکن عملی میدان میں کچھ نہیں ہوتا ۔ یہی گائے اور گوبر کی سیاست اب بہار کے وزیراعلیٰ نے بھی شروع کر دی ہے‘ لیکن نتیش کمار شاید بھول گئے ہیں کہ وہ اس بی جے پی کے ساتھ ہیں ‘جو شمالی ہند میں گائے کے تحفظ کی وکالت تو کرتی ہے‘ لیکن نارتھ ایسٹ کی ریاستوںمیں یہی بی جے پی‘ گائے کے گوشت کے انتظامات کے وعدے اور اعلانات کرتی ہے: اگر کہا جائے کہ گائے ایک جگہ ان کے لئے ممی ہے اور دوسری جگہ ان کے لئے یممی تو غلط نہ ہو گااور وہ جب چاہتے ہیں ممی کو یممی اور یممی کو ممی بنا دیتے ہیں۔

ساڑھے چار سال کی طویل خاموشی کے بعد وزیراعظم مودی نے جو باتیں کہی ہیں ‘ان سے بھی کوئی عملی چیز نظر نہیں آرہی۔ مودی نے رافیل طیاروں کی خریداری پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رافیل میں ان پر کوئی الزام نہیں‘ بلکہ سرکار پر الزام ہے اور الزام لگانے والوں کو ثبوت دینا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ جب چور ہی چوکیدار ہو اور چوکیدار‘ چور ہو تو پھر ثبوت کون؟ کسے؟ اور کہاں دے؟ اور ان کو ثابت کرنے کے لئے بنائے گئے میکانزم کا استعمال کیسے ہو؟ مودی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر چکا ہے‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی سرکار نے کس طرح سے سپریم کورٹ کو گمراہ کیا‘ جس کی وجہ سے ایک غلط فیصلہ آیا۔

شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری واقعہ ہو‘ جب کسی سرکار نے عدالت کو گمراہ کیا ہو۔ وزیراعظم مودی اپنی سرکار پر لگنے والے ”کلنک‘‘ کو آخر کیسے مٹا پائیں گے؟ مودی کو چاہئے تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ ان کی سرکارسے جو غلطی ہوئی ہے‘ وہ اس کے لئے معافی مانگتے ہیں۔ میں اور میری سرکار نے مل کر پارلیمنٹ کا وقت برباد کیا‘ وہ اس کے لئے معافی کے طلب گار ہیں اور اب اعلان کرتے ہیں کہ رافیل میں جو کچھ بھی ہوا ہے‘ اس میں دودھ اور پانی سامنے لانے کے لئے‘ جے سی پی‘ یعنی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی فوری تشکیل کی جائے گی‘ تاکہ حزب اقتدار اور اختلاف دونوں مل کر اس کی تفتیش کریں اور جو بھی سچ ہو ‘ وہ سامنے لائیں۔

اگر وزیراعظم مودی نے اپنے قریبی دوست ‘ امبانی کو اس پورے معاملے میں فائدہ نہیں پہنچایا؟ انہو ںنے اپنے فرانسیسی دوست کو نوازنے کے لئے دبائو نہیں بڑھایا؟ جیسا کہ سابق فرانسیسی صدر کہہ چکے ہیں کہ خود مودی سرکار نے ریلائنس کا نام دیا تھا‘ اس کے بعد کوئی بات باقی نہیں رہ جاتی‘ لیکن وزیراعظم اپنی ذمہ داری سے بچتے نظر آئے۔ ابھی گوا بی جے پی کے ایک وزیرکے حوالے جو خبر آئی ہے‘ وہ بھی رافیل کے معاملے میں انتہائی سنگین اور چونکا دینے والی ہے۔ رپورٹس کے مطابق منوہر پریکر نے کہا ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میرے بیڈ روم میں رافیل کی فائلیں اور کاغذات پڑے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ سرکار کے کاغذات ‘ وزیراور وزیراعلیٰ کے بیڈ روم اور باتھ روم تک کیسے پہنچ گئے؟ رافیل معاملے میں اب گوا کی بی جے پی سرکار کے وزیرنے چونکا دینے والے حقائق بتا کر بد عنوانی والی پرتوں کو مزید چاک کر دیا ہے۔ اگر راہول گاندھی نے کہا ہے کہ چوکیدار چور ہے‘ تو اس بات میں ثبوت موجودہے اور یہ ثبوت خود بی جے پی کے ذریعے ہی دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ گوا سرکار کے مکھیا ان دنوں کافی علیل ہیں۔ کئی بار ان کو برخاست کرنے تک کی خبر آچکی ہے ‘لیکن کہا یہی جا رہا ہے کہ وہ رافیل کے رازدار ہیں‘ اسی لئے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت ان کو ہٹانے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔گواسرکار کے ایک وزیر نے صاف کہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے مبینہ طور سے ان سے کہا کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ رافیل کی ساری فائلیں ان کے پاس ہیں۔

نیشنل سیکورٹی اور رافیل خرید گھوٹالے سے جڑے پورے معاملے میں بی جے پی کے وزیر کے ذریعے یہ کہنا کہ رافیل گھوٹالے کے سارے کاغذات ان کے پاس ہیں اور ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چور اور چوکیدار کا رشتہ کیا ہے؟ جیسے ہی ملک کے چوکیدار نے یہ کہا کہ اس معاملے میںسب کچھ صاف ہے‘ اسی وقت ایک آڈیو دنیا کے سامنے آگیا اوریہ محاورہ فٹ بیٹھتا ہے کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔ ادھر رافیل معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر از سر نو غور کرنے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ عدالت سے فیصلہ واپس لینے کی استدعا کے ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ بحث کھلی عدالت میں ہونی چاہئے‘‘۔( طارق انور‘ سابق ممبر بھارتی پارلیمنٹ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے