آوازیں

سائنس کہتی ہے‘ آوازیں سدا موجود رہیں گی۔ غالباً اسی لیے یہ محاورہ ایجاد ہوا ، پہلے تولو پھر بولو۔ بے تُکا ، بے تکان ، بے نطق، بے دھیان اور بے ربط بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لاء سٹوڈنٹس اور وکلاء کے لیکچر میں ، یہ بات تکرار سے کہتا ہوں: آپ کا بولا ہوا اور آپ کا لکھا ہوا آپ کا نہیں ہوتا‘ سننے پڑھنے والوں کی ملکیت بن جاتا ہے۔

ان دنوں کچھ ایسی ہی آوازیں گردش میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ گردشِ ایام والی ہیں اور کچھ گردشِ زمانہ کی ۔ آئیے یہ آوازیں سنتے ہیں۔ پہلی گونج دار آواز ہے:

سُرخ رُو ہونا

سُرخ رُو اور سیاہ رُو فارسی زبان کے الفاظ ہیں ۔ بلکہ بہت معنی خیز محاورے بھی ۔ عربی زبان میں جو کلمات ایک دوسرے کی ضد یا نفی میں ہوں ایسے ضدی الفاظ کو کلمۂ مضادہ کہتے ہیں ۔ پرائی میٹس کی دنیا میں بے بُون کو سرخ رُو اور لیمرز کو سیاہ رُو کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانی سیاسی لغت میں سُرخ رو ہونے کا اضافہ تازہ ترین ہے۔ میں اُس دن سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں تھا۔

آپ یقینا ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے باہر نواز شریف کے ساتھیوں نے سُرخ رو ہونے کا اعلانِ عام کیا ۔ لیڈیز فرسٹ کے اصول کے تحت ہماری ایک جونیئر وکیل صاحبہ نے‘ جو تب جونیئر منسٹر تھیں‘ فرمایا: آج نواز شریف، نواز شریف کے بھائی ، نواز شریف کے گھر والے ، نواز شریف کے لاکھوں کروڑوں ووٹرز سرخ رو ہو گئے ہیں۔ موصوفہ کے پسِ منظر میں مٹھائی کے ٹوکرے دکھائی دے رہے تھے ۔ پھر اُس وقت کے دھنوان وزیرِ داخلہ پوڈیم پر آئے اور یوں گویا ہوئے: عدالتِ عظمیٰ کا بہت بہت شکریہ جس نے آج پانامہ کیس میں جے آئی ٹی بنا کر حکومت کو سُرخ رو کر دیا ۔ جے آئی ٹی بننے کے بعد وہ لوگ جو نواز شریف پر الزام لگاتے تھے اُن کے گھروں میں ”صفحہِ ماتم‘‘ بچھ گیا ہے ۔ اس کے بعد گزرے دور کا پارٹ ٹائم وزیرِ خارجہ نمودار ہوا اور چیخ چیخ کر کہا: یہ جو ہے تو آزاد عدلیہ‘ اس نے یہ جو ہے ناں جے آئی ٹی بنائی ہے تو اُس نے قائدِ محترم میاں نواز شریف کو سُرخ رو کر دیا ۔

اس سُرخ روئی کے باقی مراحل آپ جانتے ہی ہیں‘ جن کے نتیجے میں عالمی سیاسیات کو ہلا کر رکھ دینے والی ”تحریکِ کیوں نکالا‘‘ چلائی گئی ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور 60 روزہ جے آئی ٹی بنائی جس کے بطن سے سُرخ روئی کا دوسرا نعرہ برآمد ہو گیا ہے ۔ یہ فیصلہ5 دن پہلے آیا ۔ اس لیے کسی مزید تبصرے کی بجائے 55 دن کا انتظار کرنا بہتر ہے ۔ ہاں البتہ میرے سمیت جو سیکڑوں دوسرے وکیل ، صحافی ، سائل اور تفتیش کار سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ایک میں موجود تھے‘ ابھی تک وہ صرف ایک ہی بات پر حیران ہیں۔ اور وہ یہ کہ ڈِرل مشین سے بایاں ہاتھ نکال کر دایاں اندر کر دینے والے سردار جی کس ”سُرخ رو ئی‘‘ پر قہقہے لگا رہے تھے ۔ دوسری آ واز ہے:

پاکستانی ڈیم

عدالتِ عظمیٰ نے بلا شبہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے خیالِ افروز ”Awareness‘‘ پیدا کی ہے‘ جس کے نتیجے میں 2 طرح کی فورسز حرکت میں آ گئی ہیں ۔ پاکستان کو سر سبز اور ہنستا بستا دیکھنے کے خواہش مند فوری طور پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے متحرک ہوئے ۔ جبکہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترسانے کی مکروہ بھارتی خواہش کے نقیب، انگاروں پر لَوٹ رہے ہیں ۔ اس قومی منظر نامے کا تیسرا کنارا بھی اہم ہے ۔ ڈیموں کی تعمیر کا عمل ٹرانسپیرنٹ اور شفاف ہونا چاہیے ۔ یہی پی ٹی آئی کا قومی ایجنڈا ہے کہ قوم کا مال حلال طریقے سے ضروری قومی پراجیکٹس پر لگے ۔ اچھا ہوا مہمند ڈیم کی ٹرانسپیرنسی پر سوال اُٹھے ۔ سوال اٹھانے والوں کا شکریہ ۔ ضروری تھا کہ سارے سوال اُٹھ جائیں ۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس کے ذریعے سارے جواب حاضر ہیں ۔ تیسری قیامت خیز آواز کہلاتی ہے:

بجلی غائب

پاکستان کے پاس قدرت کے عطا کردہ بجلی پیدا کرنے کے5 بڑے ذرائع مفت موجود ہیں ۔ آپ انہیں پنکھی جھلنے سے قلفی پیدا کرنے یا پانی سے کار چلانے جیسا منصوبہ نہ سمجھیں ۔ بجلی پیدا کرنے کے جن 5 ذرائع کا ذکر یہاں ہو گا‘ ترقی یافتہ ملکوں میں ان 5 ذرائع پر ہی برق سپلائی کے لیے انحصار کیا جاتا ہے۔

پہلا ذریعہ : ایٹمی بجلی گھر

دوسرا ذریعہ: وِنڈ ٹربائن کے ذریعے ونڈ انرجی ۔

تیسرا ذریعہ: پاکستان جیسے زرعی ملک میں بائیو گیس بکثرت موجود ہے ۔ جسے 70 سال سے با سہولت ضائع کیا جاتا ہے ۔

چوتھے نمبر پر ، چمکتے سورج کی پاک سر زمین پر سولر انرجی / شمسی توانا ئی سے بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ آتا ہے۔
پانچواں: ہائیڈرو الیکٹریسٹی پیدا کرنے کے لیے چھوٹے بڑے اور درمیانی آبی ذخا ئر / ڈیم کی تعمیر ۔ بس آپ سے اتنی عرض کرنی ہے : کھول آنکھ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ، فضا دیکھ۔ ہمارے ارد گرد یہ ذرائع تب بھی موجود تھے‘ جب 2 سابق ادوار میں ایسے پراجیکٹ لگائے گئے جو اربوں، کھربوں میں ہمارا سرمایہ کھا رہے ہیں‘ مگر بجلی غائب ہے۔ جگر پارہ پارہ کرنے والی ایک اور آواز ہے:

گردشی قرضے

گزشتہ 30 سالوں میں پاکستان میں اکانومی کی ترقیء معکوس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ ایک قومی وسائل کی سینہ زوری کے ساتھ چوری جبکہ دوسری (Circular Debts) یا گشتی قرضے ۔ خاص طور سے ہماری گزشتہ حکمرانی تاریخ کے 2 ادوار میں بے رحمی سے گردشی قرضے ہمارا گلا گھونٹنے لگے۔ بجلی پیدا کرنے کے نام پر ایشیاء کی سب سے بڑی پیدا گیری کے اس جال کا نام ہے آئی پی پی یعنی آزاد بجلی کے پراجیکٹ ۔ ان پراجیکٹس کو لگانے والے حکمرانوں نے ایسے معاہدے کیے کہ انہوں نے ملکی معیشت کو مسلسل پھانسی پر لٹکا رکھا ہے ۔ آسان زبان میں اس کی تین وجوہات جان لیں۔

آئی پی پی بجلی پیدا کرے یا نہ کرے اُسے حکومتِ پاکستان فی یونٹ بجلی کی پیداوار کی رقم ادا کرے گی ۔ دوسری فرض کریں‘ جس آئی پی پی یونٹ کے ساتھ 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ ہے۔ وہ (project-capacity ) میں بجلی پیدا کرے یا اس کی پیداوار 250 میگا واٹ کم کر دے‘ اُسے حکومتِ پاکستان نہیں ، میں اور آپ اپنی پاکٹ سے 500 میگا واٹ کی قیمت ڈالروں میں ادا کرنے کے تا حیات پابند ہیں ۔ مجھے اعتراف کرنے دیں کہ فوری اور سستی بجلی کی یہ سائنس میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ذرا اُٹھیے، گردشی قرضے والی جست لگائیے۔ اپنا بجلی کا بل دیکھ لیں۔ شاید آپ ہی سمجھ جائیں۔
قافلے منزلِ مہتاب کی جانب ہیں رواں
مری راہوں میں تری زلف کے بَل آتے ہیں
میں وہ آوارۂِ تقدیر ہوں یزداں کی قسم
لوگ دیوانہ سمجھ کر مجھے سمجھاتے ہیں

گزشتہ 30 سالوں میں پاکستان میں اکانومی کی ترقیء معکوس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ ایک قومی وسائل کی سینہ زوری کے ساتھ چوری جبکہ دوسری (Circular Debts) یا گشتی قرضے ۔ خاص طور سے ہماری گزشتہ حکمرانی تاریخ کے 2 ادوار میں بے رحمی سے گردشی قرضے ہمارا گلا گھونٹنے لگے۔

بجلی پیدا کرنے کے نام پر ایشیاء کی سب سے بڑی پیدا گیری کے اس جال کا نام ہے آئی پی پی یعنی آزاد بجلی کے پراجیکٹ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے