معروف نعت خواں جنید جمشید کا طیارہ گرنے کی وجوہات سامنے آگئیں، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے طیارے کے انجن نمبر ایک کے پاور ٹربائن بلیڈ ٹوٹ کر طیارے کے انجن میں چلے جانے کے باعث انجن بند ہوا اور حادثہ پیش آیا۔
طیارے کی آخری جانچ اور مرمت حادثے سے 25 دن پہلے ہوئی تھی۔ اس وقت تک انجن کے پاور ٹربائن بلیڈز 10 ہزار چار گھنٹے چل چکے تھے، بلیڈز فوری تبدیل ہونا لازمی تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے فلائٹ اسٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ نے طیارے کو درست طریقے سے چیک نہیں کیا اور پرواز کی اجازت دی۔
حادثات کی تحقیقات کرنے والے ادارے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی دونوں کو حادثے کا ذمے دار قرار دے دیا ۔ 7 دسمبر 2016 کو ہونے والے حادثے میں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ سمیت 47 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ (ایس آئی بی) نے اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں پی آئی اے کی جانب سے طیاروں کے منٹیننس کے نظام میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی ہے، ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طیارے کے انجن نمبر ون کا پاور ٹربائن بلیڈ ٹوٹ کر طیارے کے انجن میں چلے جانے کی وجہ سے انجن بند ہوا ، اور طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔
7 دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد پرواز کرنے والا پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا ، اس حادثہ میں معروف نعت خواں و مبلغ جنید جمشید اور ان کی اہلیہ سمیت 47 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
سروس بلیٹن کے مطابق اے ٹی آر طیارے کے انجن کے پاور ٹربائن بلیڈز 10 ہزار گھنٹے بعد تبدیل ہونا ضروری ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدقسمت طیارے کی آخری منٹیننس 11 نومبر 2016 کو ہوئی تھی، اس وقت تک انجن کے پاور ٹربائن بلیڈز 10 ہزار چار گھنٹے چل چکے تھے، بلیڈز فوری تبدیل ہونا ضروری تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، آخری منٹیننس کے بعد بھی طیارہ حادثہ سے قبل مذید 93 گھنٹے اڑ چکا تھا۔
ایس آئی بی نے حادثے کی ذمہ داری سول ایوی ایشن اتھارٹی پر بھی عائد کی ہے ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے کے فلائٹ اسٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ نے طیارے کو درست چیک نہیں کیا اور پرواز کی اجازت دے دی۔
ایس آئی بی نے اپنی سفارشات میں پی آئی اے پر زور دیا ہے کہ وہ سروس بلیٹن پر سختی سے عمل کرے اور طیاروں کی منٹیننس کا عمل بروقت مکمل کرے، جبکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ فلائٹ اسٹینڈرڈ ڈپارٹمنٹ کو بہتر بنائے اور طیاروں کو کلئیرنس دینے کے اپنے مکینزم کو درست کرے۔