14 جنوری کو آزاد ریاست جموں کشمیر کے دارالحکومت میں جس طرح سحرش سلطان کے چچا کو آزاد کشمیر پولیس کے انسپکٹر نے دھکے دیے اور حوا کی بیٹی کو حراست میں لیا گیا ، دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا میں کہیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مناظر دیکھ رہا ہوں.
احتجاج ہر شخص کا جمہوری حق ہے. اور حکومت کا کام ہے کہ تحمل سے اس احتجاج کو سنے دیکھے اور جس وجہ سے احتجاج ہو رہا ہو. اس کا حل نکالے. لیکن آزاد کشمیر میں ایک وزیر فاروق طاہر جس کے پاس وزارت بھی قانون و انصاف کی ہے. شنید میں آیا ہے کہ موصوف کو تعلیم کی وزارت دیے جانے کا امکان ہے. وزیر موصوف نے پی ایس سی ٹاپر کو سرکاری ملازم نہیں ہونے دیا اور اقربا پروری کی شاندار مثال قائم کرتے ہوئے اس کی جگہ پر اپنے خاندان کی لڑکی کو نوکری دے دی.
اس کے بعد سحرش سلطان نے مختلف فورمز پر فاروق طاہر کی اقربا پروری کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی نہ ہی پی ایس سی کو فرق پڑا. اگر اپنے اپنے چہیتوں کو ہی نوکریاں دینی ہیں تو اس پی ایس سی کے ڈرامے کی کیا ضرورت ہے .اس کے بعد پتا نہیں کس حکیم صاحب نے سحرش سلطان کو مشورہ دیا کہ آپ بادشاہ سلامت آزاد کشمیر کے دربار کے سامنے احتجاج کرو، شاید شہنشاہ آزاد کشمیر کے کانوں تک تمہاری بات پہنچ جائے.اور تمہیں تمہارا حق مل جائے. جس حکیم نے یہ مشورہ دیا غلط وہ بھی نہیں تھا اس کے سامنے بے شمار ایسے واقعات تھے جو احتجاج کے بعد حل ہو گئے تھے.
اس دنیا میں بے شمار لوگوں نے احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے تھے. خیر سحرش سلطان بلوچ ضلع سدھنوتی سے شہر اقتدار مظفرآباد چل پڑی. آج صبح جب اس نے شہنشاہ آزاد کشمیر کے دربار کے سامنے احتجاج کے لیے پہنچی تو ابھی اس نے اپنا مدعا بھی نہ بیان کیا تھا کہ بادشاہ سلامت کے ایک وزیر قانون وانصاف جناب فاروق طاہر صاحب نے اپنی پولیس کے ذریعے وہاں سے دھکے دے کر چلتا کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا. پولیس افسران مع نفری جائے احتجاج پر پہنچے اور سحرش سلطان کے چچا کو دھکے دیتے ہوئے حراست میں لے لیا . خواتین پولیس نے سحرش کو بھی حراست میں لے کر احتجاج تو رکوا دیا لیکن کشمیر کی غیرت مند قوم کے لئے سینکڑوں سوال چھوڑ کر گئی.
شہداء کی دھرتی کی اس بچی نے کون سا ایسا جرم کر دیا تھا جس پر اس کو احتجاج کا حق بھی نہیں دیا گیا.احتجاج کرنے والوں کا یہ ہی حال کیا جائے گا. اپنا حق مانگنے والوں کو مسل کر رکھ دیں گے. اگر وزیر قانون وانصاف فاروق طاہر خود ہی انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو پیچھے ہم جیسے ان پڑھ جاہل لوگ کون سے قانون پر عمل کریں گے. کسی سے کیا انصاف کریں گے؟
وزیراعظم صاحب اس واقعے سے لاعلم تھے. جبکہ گزشتہ کئی دن سے سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی تھی. اگر وزیر اعظم لاعلم تھے تو یہ قصور سحرش سلطان کا نہیں تھا. قصور وزیراعظم کی میڈیا ٹیم کا ہے قصور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا ہے جو اس خبر کو مانیٹر نہ کر سکے.اور وزیراعظم تک یہ خبر نہ پہنچا سکے.
ابھی تھوڑی دیر پہلے وزیراعظم آزاد کشمیر کے پریس سیکرٹری کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی گئی جس میں وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ سحرش سلطان کو انصاف ملے گا. اس پر وزیراعظم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ہی نوٹس کیوں نا لیا؟ایسا کیسے ممکن ہے کہ ان کو اپنی کابینہ کے وزیر کے کرتوت پتے میں نا ہوں؟
جس طرح پولیس نے سحرش سلطان کے والد کو حراست میں لیا ہے جس طرح دھکے دیے ہیں ان کی مثال کسی بھی مہذب ملک میں نہیں ملتی. ان پولیس والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے.
اسی طرح کے واقعے پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
جس دیس میں ماؤں بہنوں کو
اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کرلےجائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پربکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پہ
پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے
خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکیاں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں
آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں
ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنتِ حواکی چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس میں آٹے چینی کا
بحران فلک تک جاپہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا
فقدان حلق تک جاپہنچے
جس دیس کے ہر چوراہے پر
دوچار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں غربت ماؤں سے
بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے
ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے
عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پہ ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک لیڈر کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے