شرق اوسط کے بدلتے حقائق

ڈونالڈ ٹرمپ نے اچانک دسمبر 19 کواعلان کیا کہ امریکہ‘ شام سے اپنے 2000 فوجیوں کو واپس بلائے گا۔ یہ اعلان دفاعی سیکرٹری کے موقف کے برعکس تھا ۔ اسرائیل کے سب سے قدیم ترین امریکی حامیوں میں خاص طور پر ریپبلیکن سینیٹر لینڈسے گراہم کے درمیان خطرے کی گھنٹی سمجھا جانے لگا‘جس نے کہا تھا؛ایک شخص ‘جس پرہم نے اعتراض نہیں کیا ‘وہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ہے۔

یہ خبر جو اچانک سامنے آئی ‘ایک پراسرار‘راز سے کم نہ تھی ۔اس بات نے نیتن یاہو کو ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات پر نظر ثانی اور احتیاط سے کام کرنے کے لیے سوچنے پر مجبور کیا ۔ امریکہ کا اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کر نا‘ دوستی کے لیے مثبت اشارہ سمجھا جانے لگا ۔نیتن یاہوبخوبی جانتا ہے‘ ان مناظر کے پیچھے کہانی کچھ اور ہے ۔ وہ اس بات سے آگاہ تھا کہ امریکی فیصلوں سے نا صرف اسرائیل کو نقصان پہنچے گا‘ بلکہ اس سے کئی امریکی مفادات بھی جڑے ہیں۔

گزشتہ ہفتے برازیل میں‘ نیتن یاہونے امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیوکے ساتھ اسرائیل ‘ امریکی تعاون پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات کا یقینی بنایا کہ ایران کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینااور ‘اسرائیل کی حفاظت‘ کو یقینی بنانا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔رواں ہفتے‘ نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بولٹن نے شام اور لبنان میں ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ کے لئے امریکی حمایت کا اعلان کیا ۔

بولٹن کے بیانات سے نہیں لگتا کہ ان کا تعلق امریکی صدر کی فوجی انخلاء کی پالیسیوں سے جڑا ہے۔فوجی انخلاء کے فیصلے کے پیچھے یقینا کئی چھپے ہوئے محرکات ہوں گے۔ فوجوں کی واپسی کے وقت کا تعین حالات کی تکمیل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ہم دیکھ سکتے ہیں یہ فیصلہ صدر اوبامہ نے جوافغانستان کی صورت حال دیکھنے کے بعد اہم قدم اٹھایا تھا۔اس سے مطابقت رکھتا ہے ‘مگر یہ فیصلہ عرب اور کردش اتحادیوں کے لیے نیک شگن ثابت نہ ہوگا اورایرانیوں کو کافی حد تک فائدہ پہنچائے گا۔بولٹن کے آگے کھڑے نتن یاہو نے سوال پر اپنی عوامی خاموشی کو برقرار رکھا‘اس فیصلے کے خلاف یا حق میں دلائل دینے اور مزید بحث سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیںنکلنا تھا ‘کیونکہ فوجی انخلاء سے امریکیوں کے کئی مفادات جڑے تھے۔

بولٹن نے اعلان کیا کہ ایک خودمختار قوم کی طاقت ہی خود کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اسرائیل خود اپنا دفاع کرسکتا ہیـ۔یہ ایک تنبیہ نہیں تھی ‘لیکن ایک تعریف ضرور تھی کہ فوجی خود مختاری اسرائیل کی قومی اخلاقیات کا مرکز ہے‘ نوجوان فوجیوں کی اپنے ملک اور والدین کے لیے خدمات انجام دینا مثبت عمل قرار دیا گیا ۔ دنیا میں انسانی حقوق کی پاسداری کا علم تھامنے جیسے القابات سے نوازا گیا‘ جب کہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل ہی سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنتا ہے۔

اسرائیلی نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہ اسے معیوب نہیں سمجھتے کہ جب ٹرمپ نے کہاتھا کہ ہم اسرائیل کو اپنی لڑائیاں ‘ لڑنے کے لئے بہت بڑی رقم دیتے ہیں ۔ انہوں نے اس رقم کو 4.5 بلین ڈالرسے منسوب کیا تھا‘ جو اکثر اسرائیل ‘ امریکی ساختہ ہتھیار خریدنے کے لئے استعمال کرتے ہیں‘ یہ ایک حقیقت جوٹرمپ کی پالیسیوں میں شامل ہے ۔

شام کے شمال مشرق میں2000 امریکی فوجی دستوں کی موجودگی نے ایران ‘لبنان کی پراکسی جنگ کے ساتھ حزب اللہ کو خوراک و دیگر جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے راستوں کو روکنے میں مدد دی ہوئی تھی ‘مگر یہ بات یروشلم کے نقطہ نظر سے مماثلت نہیں رکھتی ‘اسرائیل زیادہ تر حزب اللہ سے فضائی جنگ کو ترجیح دیتاہے اور فضائی حملے کرتا ہے۔نیتن یاہو‘ امریکہ سے ہمسایہ ممالک میں فوج نہیں چاہتا‘وہ چاہتا ہے کہ امریکہ ‘اسرائیل کو شام ‘لبنان اور عراقی فضائی علاقوں میں کارروائی کرنے کی اجازت دے۔

اسرائیل اپنی فضائی برتری کے ساتھ‘ زمین پر سرخ لائنوں کو برقرار رکھنے کے لئے‘ دمشق کے ذریعے ایرانیوں اور حزب اللہ کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی سے روکے ہوئے ہے ‘ جدیدآلات سے ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔روس نے شام میں نئے فضائی دفاعی مراکزقائم کیے ہوئے ہیں‘ وہ اسرائیلی سکیورٹی کے مفادات کا احترام بھی کرتاہے‘ لیکن یہ صورت تبدیل ہوسکتی ہے؛ اگر روس شام کو براہِ راست دفاعی طور پر کنٹرول کرنے کی اجازت دے‘روس ترکی اورایران کے ساتھ معاہدے بھی کر سکتا ہے ‘حالات کشیدگی کی جانب جا سکتے ہیں؛ اگر روس اور امریکہ اپنے اپنے اتحادیوں کو کھلی چھٹی دے دیں ۔

فوجی انخلاء کی منصوبہ بندی کے بعد امریکہ نے اسرائیل کے لیے گولان ہائٹس کے مسئلے کو بڑھانے کے لئے ایک نیا موقع بھی تیار کیا ہے‘ جسے اسرائیل اپنی قومی سلامتی کے لئے لازمی سمجھتا ہے ۔ابھی تک کسی قوم نے ہائٹس میں اسرائیلی حاکمیت کو قبول نہیں کیا ‘ جسے اسرائیل نے چھ دن کی لڑائی کے بعد شام سے حاصل کیا۔نیتن یاہو نے بولٹن سے کہا کہ اسرائیل کبھی بھی ہائٹس نہیں چھوڑ سکے گا ۔اس نے اعلان کیا کہ وہ ہائٹس کا دورہ کرے گا۔نیتن یاہو نے اپنے دو سرکاری دوروں کا اعلان بھی کیا‘ لیکن خراب موسم کے باعث ممکن نہ ہو سکے۔نیتن یاہو کو امید ہے کہ فوجی انخلاء کے بعد امریکہ شام سے متعلق اپنی نئی پالیسی جلد واضح کرے گا۔

امریکی فوجی انخلاء کی پالیسی یقینا اسرائیلی عوام اور حکومت کو پریشان کیے ہوئے ہے ‘مگر وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ امریکہ کبھی انہیں کسی میدان میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے