وزیراعظم دس منٹ دے دیں

سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر 2018ء کو آسیہ بی بی کو باعزت بری کردیا اوریکم نومبرکو پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے‘ سڑکیں‘ شہر‘ اسکول اور مارکیٹیں ہر چیز بند ہو گئی‘ مظاہرین نے موٹروے پر بھی قبضہ کر لیا‘ سیکڑوں گاڑیاں‘ املاک اور عمارتیں توڑ دی گئیں‘ جلا دی گئیں یا تباہ کر دی گئیں‘ ہم نے جی بھر کر عام لوگوں‘ سرکاری پراپرٹی اور سرکاری عمارتوں سے توہین رسالت کا بدلہ لیا‘ ہنگاموں کے دوران 60 سکھ یاتری بھی موٹروے پر پھنس گئے‘ یہ سکھیکی کے قریب تھے۔

موٹروے پولیس انھیں فوراً سکھیکی ریسٹ ایریا میں لے گئی اور ان کی حفاظت کے لیے کمانڈوز تعینات کر دیے‘ یہ لوگ پاکستان کے مہمان تھے‘ یاترا کے لیے ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب آئے تھے‘یہ موٹروے کے ذریعے لاہور جا رہے تھے کہ اچانک موٹروے میدان جنگ بن گیا جس کے بعد یاتری اسلام آباد لے جائے جا سکتے تھے‘ لاہور اور نہ ہی انھیں واپس ننکانہ صاحب پہنچایا جا سکتا تھا‘ پولیس کے پاس انھیں بچانے اور نکالنے کا صرف ایک طریقہ تھا اور وہ طریقہ تھا ہیلی کاپٹر‘موٹروے پولیس ہیلی کاپٹر کے لیے آدھا دن کوشش کرتی رہی مگر کوئی سنوائی نہ ہوئی یہاں تک کہ آئی جی کو ہیلی کاپٹر کے لیے وزیراعظم تک جانا پڑا‘ وزیراعظم نے ڈائریکٹ آرڈر دیا‘ فوج کی قیادت نے اجازت دی اور یوں وہ 60 یاتری بحفاظت موٹروے سے نکالے گئے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر آئی جی موٹروے وزیراعظم تک نہ جاتے اور اگر وزیراعظم خود دلچسپی نہ لیتے تو ان یاتریوں کا کیا بنتا اور اگر خدانخواستہ ان پر حملہ ہو جاتا اور کسی ایک یاتری کی جان چلی جاتی تو کیا ہوتا؟ بھارت کے ہاتھ ایک اور بہانہ آ جاتا اور یہ دنیا بھر میں دل کھول کر پاکستان کو بدنام کرتا‘ یہاں سوچنے کی ایک اور بات بھی ہے‘ پاکستان کی سب سے اچھی پولیس فورس کے پاس یاتریوں کو بچانے اور نکالنے کے لیے فورس بھی نہیں اور ہیلی کاپٹر بھی نہیں اور یہ اس لحاظ سے دنیا کی کمزورترین موٹروے پولیس ہو گی اور کیا یہ ہم جیسی نیوکلیئر پاور کے منہ پر تھپڑ نہیں؟
ہماری موجودہ حکومت شاید فوری طور پر ملک کے تمام بڑے مسائل حل نہ کر سکے لیکن یہ معمولی سی توجہ دے کر ہائی ویز اور موٹرویز کے مسائل ضرور حل کر سکتی ہے اور یہ اس ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی‘ پاکستان دنیا میں ٹریفک حادثوں میں بدترین ممالک میں شمارہوتا ہے‘ ہمارے ملک میں ہر سال اوسطاً 30 ہزارلوگ سڑکوں پر حادثوں کی نذر ہو جاتے ہیں‘ ہم دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہیں جو آج تک ملک میں ہیلمٹ کو لازمی قرار دے سکے‘ ڈرائیونگ لائسنس ‘ گاڑی کی مینٹیننس اور جو نہ ہی پورے ملک کے لیے ایک نمبر پلیٹ کاقانون بنا سکے چنانچہ ہم ٹریفک اور ٹریفک پولیس دونوں شعبوں میں بدترین ہیں‘ حکومت نے 1997ء میں لاہور سے اسلام آباد چارسو کلو میٹر کے لیے موٹروے پولیس بنائی تھی۔

یہ چار سو کلو میٹر پھیل کر پانچ ہزار چار کلو میٹر ہو چکے ہیں لیکن موٹروے پولیس کے اہلکار اور وسائل آج بھی 1997ء پر کھڑے ہیں‘ ان کے پاس گاڑیاں تک نہیں ہیں اور جتنی ہیں ان کے لیے پٹرول نہیں‘آپ المیہ دیکھئے فائربریگیڈ اور حادثے کی شکار گاڑیاں اٹھانے کے لیے لفٹر ایف ڈبلیو او کے پاس ہیں‘ موٹروے پولیس حادثے کے بعد فائر بریگیڈ اور لفٹر کے لیے ایف ڈبلیو او سے رابطہ کرتی رہ جاتی ہے اور اس دوران گاڑی اور مسافر دونوں جل کر مر جاتے ہیںاور آئی جی کو یاتری نکالنے کے لیے بھی وزیراعظم سے رابطہ کرنا پڑتا ہے چنانچہ میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ نے ملک کے مختلف شعبوں کی اصلاح کے لیے بے شمار ٹاسک فورسز بنائی ہیں‘ آپ ایک ٹاسک فورس ڈرائیونگ‘ ٹریفک اور ہائی وے پولیس کے لیے بھی بنا دیں‘ آپ کی معمولی سی توجہ سے ہزاروں لوگوں کی جان بچ جائے گی۔

میں حکومت کو چند تجاویز دینا چاہتا ہوں‘ میرا خیال ہے یہ تجاویز زیادہ مہنگی نہیں ہیں‘ ہمیں ان پر عمل کے لیے پیسہ کم اور توجہ زیادہ چاہیے اور ٹریفک کے مسائل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائیں گے‘ حکومت قانون بنا دے موٹر سائیکل بنانے اور بیچنے والی تمام کمپنیاں موٹر سائیکل کے ساتھ دو ہیلمٹ دیں گی‘ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمٹ کو لاک کرنے کے لیے ہک اورتالا بھی ضرور ہوگا اور یہ لاک موٹر سائیکل کی چابی سے کھلے گا‘ آپ اس کے بعد پورے ملک کے لیے ہیلمٹ لازمی قرار دے دیں اور اگر فیصل واوڈایا گورنر عمران اسماعیل بھی ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلاتے نظر آئیں تو انھیں بھی جرمانہ ہو اور یہ جرمانہ موٹر سائیکل اور سوار دونوں کی ویلیو کے مطابق ہو‘ملک میں آج تک ہیلمٹ کے قانون پر اس لیے بھی عمل نہیں ہو سکا کہ موٹر سائیکل پر ہیلمٹ کو لاک کرنے کا سسٹم موجود نہیں‘ آپ لاک لگوا دیں ہیلمٹ کی پابندی شروع ہو جائے گی‘ حکومت پورے ملک کے لیے نمبر پلیٹ ایک کر دے۔

یہ اگر فوری طور پر ممکن نہ ہو تو آپ نادرا کے ذریعے ملک میں موجود تمام گاڑیوں کے لیے بارکوڈ بنوا دیں اور یہ بارکوڈز ونڈ اسکرین اور نمبر پلیٹ دونوں پر لگوا دیں‘ بارکوڈ میں گاڑی اور مالک کی تمام تفصیلات موجود ہوں اور پولیس اپنے موبائل فون اور کیمروں کے ذریعے یہ بارکوڈز پڑھ سکے‘ نادرا یہ کام بڑی آسانی سے کر سکتا ہے‘ ملک میں موٹروے اور ٹریفک پولیس کی کمی ہے‘ حکومت عدلیہ کے ساتھ مل کر ٹریفک مینجمنٹ کو چھوٹے جرائم کی سزا میں شامل کرا دے اوریوں عدلیہ یورپ کی طرح معمولی جرائم میں محبوس نوجوانوں کو دو تین مہینے کے لیے موٹروے یا ٹریفک پولیس کے حوالے کر دے اور پولیس انھیں ٹرینی جیکٹ پہنا کر ٹریفک مینجمنٹ پر لگا دے۔

اس سے جیلوں اور حوالات پر بھی دباؤ کم ہو جائے گا اور ٹریفک پولیس کو نفری بھی مل جائے گی‘ پاکستان میں آج اڑھائی کروڑ گاڑیاں ہیں جب کہ لائسنس پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں ہیں‘ گویا دو کروڑ گاڑیاں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر سڑکوں پر ہیں‘ یہ گاڑیاں چلتی پھرتی خودکش بمبار ہیں‘ حکومت اگرڈرائیونگ لائسنس کو کالج‘ نوکری (پرائیویٹ یا سرکاری)‘ جائیداد کی خریدو فروخت‘ اکاؤنٹس اور پاسپورٹ کے لیے لازمی قرار دے دے اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے ڈرائیونگ اسکول کی شرط رکھ دے تو ملک کے زیادہ تر لوگ لائسنس ہولڈر ہو جائیں گے‘یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا‘ ملک میں اسی طرح جہاں جہاں شناختی کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے وہاں ڈرائیونگ لائسنس کا نمبر بھی لکھا جائے یوں بھی لائسنس ضروری ہوتا چلا جائے گا‘ حکومت ڈرائیونگ لائسنس کے لیے نادرا جیسی نیشنل لائسنس اتھارٹی بھی بنا دے‘ ملک کے تمام ڈرائیونگ لائسنس یہ اتھارٹی جاری کرے‘ یورپ میں ہر گاڑی میں کراس یا روڈ کون‘ چمکدار جیکٹ‘ ٹارچ اور آگ بجھانے والا سلنڈر لازمی ہوتا ہے‘ یہ تمام اشیاء کار کٹ کہلاتی ہیں‘ گاڑی جہاں بھی خراب ہوتی ہے‘ ڈرائیور فوری طور پر چمکدار پیلی جیکٹ پہن لیتا ہے۔

گاڑی سے دس گز کے فاصلے پر روڈ کون یا کراس رکھ دیتا ہے اور اگر رات ہو تو کون کے ساتھ ٹارچ رکھ دیتا ہے‘ پوری دنیا میں اس وقت فرانس کے یلو جیکٹ مظاہروں کے چرچے ہیں‘ لوگوں نے یہ یلو جیکٹ اپنی گاڑیوں سے نکال کر پہنی تھی اور یوں یہ یلو جیکٹ انقلاب بن گیا‘ ہم بھی کار کٹ لازمی قرار دے دیں‘ ملک میں کوئی گاڑی کارکٹ کے بغیر سڑک پر نہ آ سکے اور اگر آ جائے تو ٹریفک پولیس اسے کم از کم دس ہزار روپے جرمانہ کرے‘ پانچ ہزار ٹریفک پولیس کے کھاتے میں چلے جائیں اور پانچ ہزار کی کٹ لے کر ڈرائیور کو دے دی جائے‘ حکومت کٹ کو کریم‘ اوبر اور میٹرو ٹیکسی کے لیے فوراً لازمی قرار دے دے‘ یہ کمپنیاں ایک ماہ کے اندر اندر یہ کٹ اپنی گاڑیوں میں رکھوا دیں۔

آپ اسی طرح موٹروے اور ہائی وے کے تمام پٹرول پمپس ‘ ریستورانوں اور شاپنگ سینٹروں میں روڈ سیفٹی کارنر بنوادیں اور وہاں کارکٹ اور روڈ سیفٹی کے بروشرز رکھوا دیں‘ لوگ دیکھ دیکھ کر بھی آلات خریدنا شروع کر دیں گے‘ حکومت اسی طرح روڈ سیفٹی کا کورس اور ڈرائیونگ لائسنس یہ دونوں انٹر میڈیٹ کے رزلٹ کے ساتھ نتھی کر دے‘ پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ایف اے اور ایف ایس سی کی سند جاری نہ کریں‘ حکومت کالجوں میں ڈرائیونگ کی تربیت اور لائسنس دونوں کے یونٹس بھی کھلوا دے یوں لائسنس اتھارٹی پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا اور لائسنس بھی بن جائیں گے‘ موٹروے پر سفر کے لیے موٹروے ریڈیو بھی لازمی کر دیا جائے‘ یورپ میں جب بھی ہائی وے کے بارے میں کوئی وارننگ آتی ہے تو گاڑیوں کا ریڈیو آٹو میٹک آن ہو جاتا ہے اور وارننگ کے بعد بند ہو جاتا ہے‘ یہ بندوبست اب کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ حکومت شروع میں یہ موٹروے پر کرے اور پھر اس کا دائرہ ملک کی تمام سڑکوں تک پھیلا دے۔

اس سے ٹریفک کا بہاؤ بھی ٹھیک ہو جائے گا اور لوگوں کو بے وقت حادثوں‘ سڑک کی بندش اور ٹریفک کے پریشر کا بھی بروقت پتہ چل جائے گا اور آخری درخواست حکومت کم از کم موٹروے پر فائربریگیڈ‘ ایمبولینس اور کارلفٹر کو اکٹھا کر دے‘ یہ تینوں یونٹ موٹروے کے پاس ہونے چاہئیں اور یہ ایک کال پر موو ہو جانے چاہئیں‘ وزیراعظم کسی دن فائربریگیڈز کا معائنہ کرا کے دیکھ لیں‘ پاکستان کی زیادہ تر فائر بریگیڈز گاڑیوں میں پانی نہیں ہوتا‘کیوں؟ کیونکہ پانی کے لوڈ سے گاڑیوں کے ٹائر خراب ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ ٹائر بچانے کے لیے ان میں ہوا بھی کم کر دیتے ہیں اور انھیں خالی بھی رکھتے ہیں چنانچہ جوں ہی حادثے کی اطلاع ملتی ہے یہ لوگ ٹائروں میں ہوا پوری کرنے اور گاڑی میں پانی بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں آدھا گھنٹہ ضایع ہو جاتا ہے‘ یورپ میں فائربریگیڈ کی گاڑیاں ہر وقت پانی سے فل رہتی ہیں تاہم یہ لوگ ٹائروں کو بچانے کے لیے گاڑیوں کے نیچے جیک لگا دیتے ہیں‘ یہ جیک حادثے کی کال کے بعد ہٹا دیے جاتے ہیں اور گاڑیاں موو کر جاتی ہیں۔

قوم جانتی ہے حکومت اس وقت بڑے بڑے مسائل میں الجھی ہوئی ہے‘ بڑے مسائل کے اس انبار میں ٹریفک ایک چھوٹاایشو ہے لیکن یہ چھوٹا ایشو ہر سال 30 ہزار لوگوں کی جان لے جاتا ہے‘ میری حکومت سے درخواست ہے یہ اگر اس ایشو کو روزانہ دس منٹ دے تو یہ ایشو ایک ماہ میں ختم ہو جائے گا‘ ہزاروں جانیں بچ جائیں گی اور ہر جان وزیراعظم اور نئے پاکستان کو دعائیں دے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے