چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے لیے کتنا آسان ہوگا؟

پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ لینے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں انتظامی امور میں مداخلت کے حوالے سے کافی آوازیں اٹھتی رہیں۔

اس حوالے سے بی بی سی نے چند سابق ججوں سے بات کی اور اس حوالے سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے کہ نئے آنے والے چیف جسٹس کو ثاقب نثار کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے باعث انصاف کی فراہمی میں آسانی ہوگی یا مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا؟

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کا کہنا ہے کہ آصف سعید کھوسہ کو دونوں صورتوں کا سامنا ہوگا، چند معاملات میں آسانی جبکہ کچھ میں مشکلات ہوں گی۔ لیکن وہ مضبوط شخصیت کے مالک اور انتہائی قابل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جج کو اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے اور ایک اچھا جج ہر طرح کے دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بطور چیف جسٹس مدت ملازمت کا دورانیہ بہت کم ہے اس کم وقت میں وہ کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں لا سکیں گے البتہ ان کو انصاف کی فراہمی میں عام آدمی کے لیے آسانی پیدا کرنی چاہیے۔

جبکہ سابق جج جسٹس شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ ہر چیف جسٹس کی اپنی شخصیت ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ نیا چیف جسٹس انہی چیزوں کی پیروی کرے جو اس سے پہلے چیف جسٹس کرتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر ’جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری بہت متحرک تھے لیکن ان کے بعد آنے والے جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے ایسی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

’سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جب شروع میں آئے تو انھوں نے بھی کچھ ایسا نہیں کیا لیکن بعد میں ملکی صورتحال کے پیش نظر کیونکہ اس وقت کسی قسم کی گورننس ملک میں نہیں تھی اور کوئی ادارہ صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا تو انھوں نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی اور اس کو اپنی ذمہ داری سمجھا۔ لیکن ممکن ہے کہ نئے چیف جسٹس ایسا نہ کریں کیونکہ ان کی شخصیت تھوڑی مختلف ہے۔‘

انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’انصاف کی فراہمی کی بات نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا کام ہی انصاف کی فراہمی ہے جو برقرار رہے گی البتہ اس کے طریقہ کار میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔‘

لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ ’ہر انسان کی اپنی شخصیت اور ذہنیت ہوتی ہے، ہمیشہ ہر جج کے کیے گیے فیصلوں میں ان کی اپنی ایک پرچھائی ہوتی ہے اور ثاقب نثار نے اس عہدے کو ایک مشن کے طور پر لیا اور میں نے انھیں ایسے ہی کرتا دیکھا۔‘

’انھوں نے سنیچر اور اتوار کو بھی کام کیا لیکن یہ بات درست ہے کہ عدلیہ جیسے میڈیا سے ہچکچاتی ہے یہ انداز جسٹس ثاقب نثار کا نہیں تھا یہ ہر بات کو برملا میڈیا پر کہتے تھے اور ڈیم فنڈ اور خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے بات بھی کی اور دورے بھی کیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں انھوں نے انتظامیہ کے کام میں بھی مداخلت کی تو یہ مسائل ایسے ہیں جو ججز اور جوڈیشری کے ضابطہ اخلاق سے متصادم تھے اور بہت سے کام انھوں نے ایسے کیے جو عدلیہ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔‘

جبکہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے دائرے آئینِ پاکستان میں متعین ہیں لیکن عدلیہ کو اختیار ہے کہ اگر حکومت اپنے دائرے سے باہر نکلے تو اس کو متنبہ کرے۔

دوسری جانب جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں تو اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ انھوں نے کسی کام میں مداخلت کی، انھوں نے ان مقدمات پر بھی نوٹسز لیے جن کے متعلق پارلیمنٹ اور انتظامیہ کچھ نہیں کر رہی تھی، دیگر ادارے کچھ نہیں کر رہے تھے اور میرے خیال میں انھوں نے ایسی صورتحال میں بطور چیف جسٹس اس کو اپنی ذمہ داری سمجھا کہ وہ اس میں مداخلت کرتے ہوئے انصاف فراہم کریں۔ کوئی بھی ایسا کیس نہیں ہوا جس میں انصاف و قانون کے تقاضے پورے نہ کیے ہوں۔‘

جسٹس ثاقب نثار کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کا کہنا تھا کہ تاریخ ان ججز کو یاد رکھتی ہے جو اپنا کام قانون و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مکمل کرتے ہیں، ان ججز کو یاد نہیں رکھا جاتا جو صرف عوامی مفاد عامہ کے کام کریں۔

جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ ‘سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی طاقت کو استعمال کیا تو اس سے عوام کے دل میں ان کی عزت بڑھی اور میرے خیال میں لوگ ان کو اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے۔’

جبکہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ تاریخی پس منظر کا پتہ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد چلے گا لیکن ان کے چند اقدامات کو عوام میں مقبولیت بھی ملی اور تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے