سابق چیف جسٹس کی ’عدالتی، غیر عدالتی سرگرمیاں‘

سال 2016 کے آخری دن جب میاں ثاقب نثار نے پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی سربراہی کا منصب سنبھالا تھا تو ان کے سابقہ کیریئر کو دیکھتے ہوئے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ اگلے دو سالوں میں ان کے اقدامات ایسے ہوگے کہ لوگ ان کا موازنہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے متنازع دور سے کریں گے۔

[pullquote]’پہلا اور آخری موقع ‘[/pullquote]

عدالت اعظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد میاں ثاقب نثار کا پہلا امتحان اُس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف جاری پاناما پیپرز کا مقدمہ تھا جس کے لیے انھوں نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ بنایا لیکن خود کو اس سے علیحدہ رکھا۔

اپریل 2017 میں فیصلہ آنے تک یہ مقدمہ میڈیا پر لمحہ با لمحہ زینت بنتا رہا اور آصف سعید کھوسہ کا لکھا ہوا فیصلہ ‘گاڈ فادر’ ناول کے اقتباسات دینے کے باعث بہت مقبول ہوا۔

اس اثنا میں ثاقب نثار کا نام سوائے دس سالہ طیبہ پر کیے جانے والے تشدد پر لیے گئے از خود نوٹس کے مقدمے کے علاوہ شہ سرخیوں میں نہیں تھا۔

لاہور میں مقیم وکیل اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ سروپ اعجاز کے مطابق ‘پاناما کے مقدمے کو عوام، میڈیا اور حتی کہ سکیورٹی سٹیبلیشمنٹ کے حلقوں میں توجہ ملی، وہ تمام کی تمام جسٹس آصف کھوسہ کے حوالے سے تھی۔‘

سروپ اعجاز کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی پایسی کا نتیجہ اگلے دو سالوں میں 43 از خود نوٹسز کی صورت میں سامنے آئی۔

[pullquote]’غیر عدالتی سرگرمیاں ‘[/pullquote]

چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت مفاد عامہ کی خاطر لیے گئے 43 از خود نوٹسز لینے کی وجہ سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور کی یاد تازہ ہو گئی لیکن جس چیز نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو ممتاز بنایا وہ ان کے غیر عدالتی عملی اقدامات تھے۔

ان اقدامات میں سے بھی سب سے زیادہ مشہور و معروف قدم جولائی 2018 میں دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کی خاطر چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ڈیم فنڈ کا قیام تھا۔

اس فنڈ کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر مہم شروع کی گئی اور اس کی مد میں سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں سے چندے کا مطالبہ کیا گیا۔

بات صرف یہاں پر نہیں رکی بلکہ چندہ جمع کرنے کی خاطر چیف جسٹس نے نئی روایت کو جنم دیا جب انھوں نے متعدد ٹی وی چنیلز پر چندہ جمع کرنے کی مہم کے بارے میں آن کیمرہ بات چیت کی۔

اس کے علاوہ اکثر اوقات ایسا دیکھنے میں آیا کہ جس کسی پر بھی عدالتی کاروائی کے تحت جرمانہ عائد کیا گیا ہو، اسے حکم دیا کہ وہ ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کرائے۔

اسی فنڈ کی خاطر چیف جسٹس نے برطانیہ اور ترکی کا بھی دورہ کیا اور مختلف تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے عوامی طور پر خطاب کیا جس کے بارے میں کئی مبصرین نے اس رویے کو عدالتی کوڈ آف کنڈکٹ سے متصادم قرار دیا۔

ڈیم فنڈ اکھٹا کرنے کے علاوہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سال 2018 میں نجی سکولوں کی فیس میں کمی کے حوالے سے فیصلے کیے، نجی ہسپتالوں میں مہنگے علاج کے خلاف اقدامات اٹھائے اور موبائل فون پر سرکاری ٹیکس کے اطلاق کو ختم کرایا۔

اس کے علاوہ ہسپتالوں پر ان کی جانب سے مارے گئے چھاپوں کو میڈیا پر ‘وال ٹو وال’ دکھایا جاتا رہا جن میں وہ ہسپتال کے منتظمین کی سرزنش کرتے پائے گئے۔

[pullquote]’انصاف کی فراہمی'[/pullquote]

لاہور میں مقیم وکیل اسد رحیم کہتے ہیں کہ قانونی حلقوں میں روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ججوں کو اپنا منصب صرف اپنے فیصلوں صادر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور شاید اس لحاظ سے اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔

‘لیکن جہاں تک ان کے فیصلوں کی بات ہے، انھوں نے کئی سالوں سے التوا کے شکار آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ کیا جو کہ بہت قابل تحسین ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شاہ رخ جتوئی کے معاملے کو بھی سو موٹو کے تحت دوبارہ سنا جس کے نتیجے میں اس کو دوبارہ جیل سزا ہوئی۔’

اسد رحیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی وجہ سے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معاملہ میں انکوائری ہوئی ہے اور انھی کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن کیس اور تاریخی اصغر خان کیس ابھی تک عدالت میں سنے جا رہے ہیں۔

‘یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ثاقب نثار کے دور میں انصاف فراہم کیا گیا، البتہ انصاف پہنچانے کے عملی تقاضے شاید زیر بحث رہیں گے۔’

[pullquote]’ساتھی ججوں سے اختلافات ‘[/pullquote]

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور کی ایک خاص بات ان کے بنائے گئے بینچوں میں اتفاق رائے تھا لیکن اس کے برعکس چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ان کا دیگر ججز سے اختلاف کئی مواقعوں پر کھل کر سامنے آیا۔

مارچ 2018 میں سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے جج دوست محمد خان نے اپنے اعزاز میں دیے جانے والے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی جس پر سپریم کورٹ کی راہداریوں میں کافی چہ مگوئیاں ہوئی تھیں۔

اس کے بعد جولائی 2018 میں ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئیر جج جسٹس شوکت صدیقی نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا کہ اس ادارے کے اہلکار عدالتوں میں مداخلت کرتے ہیں اور بقول جسٹس صدیقی کے اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔

اس بیان پر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کی برطرفی کی سفارش کی جس پر شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا نہ ہی ان کی جانب سے لگائے گئے حقائق کو جانچنے کے لیے کوئی کمیشن بنایا گیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا اپنے ساتھیوں سے ہونے والے اختلاف کا ایک بڑا واقعہ ان کی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے ایک اور جج منصور علی شاہ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے عدالتی فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

ساتھ میں ایک اور جج فائز عیسی نے عدالت کی جانب سے از خود نوٹس لینے کے رجحان کے بارے میں اپنے اختلاف کا اظہار کیا۔

لاہور میں مقیم وکیل اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ سروپ اعجاز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے بینچ بنائے لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کا کچھ زیادہ فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف چیف جسٹس ثاقب نثار سے تین دہائیوں سے تعلق رکھنے والے وکیل امتیاز صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے عدالتی فیصلے اور ان کا رویہ ‘معمول سے ہٹ’ کے تھا۔

‘چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے عدالتی طاقت کا مظاہرہ آئین سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور کئی بار ان کی جانب سے لیے گئے اقدامات قانون کی تشریح سے بڑھ کر تھے۔’

امتیاز صدیقی نے مزید کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں متعدد بار یہ دیکھا گیا کہ انھوں نے اپنے سامنے پیش ہونے والے سائلین اور ان کے وکلا کے ساتھ تضحیک آمیز برتاؤ کیا۔

‘کیا ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے دیے ہوئے فیصلے تبدیل ہو سکیں گے؟’

صحافی مطیع اللہ جان کا اس سوال پر کہنا تھا کہ پاکستانی عدالتیں ریویو پٹیشن کے معاملے میں کافی لچک دکھاتی ہیں۔

‘یہ بہت ممکن ہے کہ آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پچھلے دور میں لیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے سپیشل بینچ تشکیل دیں تاکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، بالخصوص ان کے زبانی احکامات کا۔ ‘

ادھر وکیل سروپ اعجاز کا ماننا تھا کہ ڈیم فنڈ کے حوالے سے دیے گئے فیصلوں کو تو فوری طور پر تبدیل کیا جانا چاہیے۔

‘اصل امتحان اس وقت ہوگا جب چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں سے متاثرہ افراد عدالت میں داد رسی کے لیے دوبارہ آئیں گے تو پھر غالباً مقدمات کی صورتحال دیکھتے ہوئے اس پر کوئی عمل ہوگا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے گئے کئی اقدامات کو از سر نو دیکھنا ضروری ہوگا کیونکہ انھوں نے بہت سے ایسے کام کیے تھے جو عدالتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے