پاکستان اوربھارت کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا دیکھیں گے؟

میں اللہ تعالیٰ کے حضور‘ زمین پر سجدہ کرتے ہوئے بھیگی آنکھوں کے ساتھ‘ ایک التجا کر رہا ہوں او روہ یہ کہ ہماری مظلوم قوم کے محنت کشوں اور غریبوں نے بے شمار قربانیاں دے کر وطن کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا تھااور وہ بھی دو حصوں میں بٹا ہوا۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح نے شدید بیماری اور ضعیف العمری میں صدیوں سے ظالموں‘ سرمایہ داروں اور مذہبی تعصب کی تنگ نظری میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ اب ان کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان میں نکلیں ورنہ آزادی کا لمحہ گزر گیا تو پھر شاید آنے والی مزید صدیوں میں نجانے کب آزادی نصیب ہو؟

مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد روتے روتے‘ برصغیر کے تمام مسلمانوںکی آنکھیں خشک ہوتی جا رہی ہیں۔ میں نے مشرقی پاکستان کی سیل گرلز اور بزرگ دکانداروں کی آنکھوں میں‘ اس وقت نمی دیکھی جب انہیں پتہ چلا کہ” ہم پاکستان سے آئے ہیں‘‘۔اس جملے میں میرے لئے بھی وہی درد تھا جو دکان پر موجود بزرگ دکاندار اور سیل گرلز کا درد‘ کیونکہ نہ وہ دونوں اپنا درد ظاہر کر رہے تھے اور نہ میں ہی ان کی نقل کر رہا تھا۔ہم ایسے ہی ہو گئے۔

بھارت کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں ہندوئوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور نتیجہ کیا نکلا؟ نریندر مودی کی شرم ناک شکست سامنے آگئی۔ مودی اور اس کے حواریوں کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ انہیں ایسی شرم ناک شکست نصیب ہو گی۔حالیہ انتخابات کے جو ابتدائی نتائج دکھائی دئیے‘ وہ سب کے لئے حیران کن تھے۔ بھارتی انتخابات صرف پانچ صوبوں یا ریاستوں میں تھے اور ان میں اکثریت ہندوئوں کی۔ مودی نے مذہبیت کے جو جذبات بھڑکائے تھے‘ ان کے نتائج دیکھ کر سب سے زیادہ صدمہ مودی اور اس کے حواریوں کو ہوا۔یہ تو ہوا متعصب ہندوئوں کی سیاست کا نتیجہ مگر ہم پر کیا گزر رہی ہے؟

پاکستان کے اندر ہمارا کون دشمن تھا؟ تھوڑے سرمایہ دار تھے جو مشرقی پاکستان میں زیادہ اور مغربی پاکستان میں کم۔ اسلام کے نام پر ہمارے سیاست دانوں نے اپنے اقتدار کے لئے مذہب کا اسی طرح سہارا لیا جیسے بھارت میں اکثریت رکھنے والے ہندوئوں نے۔وہ مسلمان قوم کے ساتھ دشمنی کے نعرے لگاتے رہے۔انہی نعروں کے خوف سے اپنی سیاست چلاتے رہے اور اپنی معاشرت کا ڈھانچہ بھی اسی مذہبی تنگ نظری کی بنیاد پر کھڑا کیا۔یہ تو ہندو سیاست کے نتائج تھے۔ کوئی نہیں جانتا آگے چل کر ہندوئوں کا کیا بنے گا؟مسلمانوں کی اقلیت جس طرح بھاری اکثریت رکھنے والے ہندوئوں پرحاوی رہی‘ اس میںوہ ہمیشہ مبتلا رہے۔ اس بڑے ملک اور بڑی قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟

میں پاکستان میں رہتے ہوئے اقلیتی ہندوئوں سے ہرگز خائف نہیں۔ مشرقی پاکستان کے مسلمان بھاری اکثریت میں تھے ۔جب میں نے ڈھاکہ میں بطور مسلمان وہاں کے باشندوں سے بات چیت کی تو صاف ظاہر ہو رہاتھا کہ وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے خوف کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سماجی‘سیاسی اور تجارتی وجوہ کی بنا پر مسلمان محنت کش ‘مزدور‘ کسان غرض مسلمانوں کی بھاری آبادی اپنی سادی اور سماجی کم تری کی وجہ سے جاگیرداروں اور ان کے پٹھوئوں کی صورت میں جاگیرداروں‘ بیوروکریٹس اور تاجروں کے غلبے میں زندگی گزار رہے تھے‘ آج بھی گزار رہے ہیں۔

متحدہ پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کی آبادی کے طبقات اکثریت میں ہونے کے باوجود کوئی اختیار یا مالی بالادستی نہیں حاصل کر پائے کیونکہ ان کے حکمران طبقے مذہبی بنیادوں سے محروم تھے۔ان کی طاقت جاگیرداری‘ بیوروکریسی اور تجارتی بالادستی مل کر بھی اپنی اکثریت کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہندو قیادت کی مذہبی ساخت نے بھارتی معاشرے پر تجارتی اور دھرم کی بالادستی کی بنا پر مسلمان قوم کو مذہبی جبر کے دبائو میں رکھا اور سماجی ساخت کو اس طرح تشکیل دیا کہ سیاسی عمل میں ہندو کا پیسہ ‘ تجارت پر اس کا قبضہ اور محنت کشی کی طبقاتی ساخت کواس طرح مرتب کیا کہ آزادی کے طویل عرصے میں جو ڈھانچہ تشکیل دیا گیا اور دیا جا رہا ہے وہ بتدریج جبر اور ظلم کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔

پاکستا ن اور بھارت کے معاشروں میں ہونے والی طبقاتی کشمکش کی سمت ایک ہی طرف ہے۔ طبقاتی کشمکش کے نتائج بھی ایک ہی جیسے برآمد ہوں گے ۔بھارت کے حکمران طبقے زیادہ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔کانگرس اوردیگر سماجی شعور رکھنے والی سیاسی جماعتیں ‘ سماج کو سست رفتاری سے بدل رہی ہیں جبکہ پاکستان میں سیاسی اور سماجی شعور انتہائی نا سمجھی کا ثبو ت دے رہا ہے۔ میں اپنی معمولی فہم کے مطابق دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے اندر تبدیلیوں میں خون ریزی کی رفتار قدرے تیز ہو گی جبکہ بھارت میں تبدیلی کی رفتار شروع میں سست ہو گی اور آگے چل کر تیز ہو جائے گی ۔ بھارت کے حالیہ ریاستی انتخابات اس کی نمایاں مثال ہیں۔ بھارت میں ترقی کا عمل طبقاتی بنیادوں پر جاری ہے جبکہ پاکستان میں ہونے والی کشمکش بلا فہم و فراست تصادم اور خون ریزی کے ساتھ ہو گی۔ دیکھتے ہیں ‘دونوں ملکوں میں سیاسی تاریخ کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے