تبدیلی ، جو آگئی اور جو نہیں آئی

کچھ بدل تورہا ہے۔ کہیں حقائق ایک نئے رنگ میں رنگے دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں سوچ اور محسوسات کی دنیا میں ہلچل سی مچی ہے۔ کہیں شور بہت ہے اور کہیں ایک موہوم سی دھمک سنائی دے رہی ہے کہ جو زیادہ پریشان کرتی ہے۔ لیکن یہ وہ تبدیلی نہیں ہے کہ جس کی آرزو لے کر بلکہ نقارہ بجاکر اور واویلا کرکے تحریک انصاف انتخابی میدان میں اتری تھی ۔ وہ تبدیلی کہ جس کے بطن سے ایک نیا پاکستان پیدا ہونے جارہا تھا ۔ اس تبدیلی کی کہانی الگ ہے۔

اس وقت میرا اشارہ اس ہفتے کی بڑی سرخیوں کی جانب ہے۔ سب سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ اب جسٹس ثاقب نثار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نہیں ہیں ۔ گویا ایک دور ختم ہوگیا کہ جس پر فوری تبصرے کی میں کوشش بھی نہیں کرونگا۔ ہاں ، جسٹس ثاقب نثار کی عدالت عالیہ کی سربراہی کے دوسال ہنگامہ خیز رہے۔ وہ نقاد جوان کی کارکردگی کا ازخود نوٹس لےرہے ہیں وہ حیران بھی ہیں کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوگیا ۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے خطاب میں جو کچھ کہا ہے اسے آپ تبدیلی کا اعلان بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ کو ہر روز یہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ دیکھیں ہمارے چیف جسٹس آج کسی کے بارے میں کیا بات کرتے ہیں۔ کس کی گوشمالی کرتے ہیں۔ کس کی دلجوئی کرتے ہیں۔ عدالت عالیہ کے اسٹیج پر جو ڈرامائی کیفیت پیدا ہوتی رہتی تھی اب اس کاکوئی امکان نہیں۔ مختصر یہ کہ یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ لیکن اس تبدیلی کو تواپنے وقت پر ہونا ہی تھا۔ہمیں معلوم تھا کہ کس تاریخ کو جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کی جگہ کون سنبھالے گا ۔

میں نے جب یہ کہا کہ کچھ تو بدل رہا ہے تو میری نظر اس دوسرے بڑے واقعہ پر زیادہ تھی جواس ہفتے کی ایک اہم سرخی بنا۔ وہ یہ کہ تحریک انصاف کی مخالف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے آخر کار ہاتھ ملالیا۔ شورمچاتی ہوئی سرخیاں بنیں کہ اپوزیشن متحد ہوگئی ۔ اس نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ منگل کے دن اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور مشترکہ لائحہ عمل کیلئے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ۔

عمران خان کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کوقومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیاگیا اور یوں قومی سیاست نے گویا ایک اور کروٹ لی ۔ کسی نے شاید پس منظر میں اس گیت کی دھن سنی ہو کہ یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے ۔ کسی بھی حکومت کے خلاف مخالفین کا اکھٹا ہوجانا ایک روایت ہے۔ لیکن اس دفعہ یہ کام بہت جلدی ہورہا ہے۔ ابھی تو تحریک انصاف کے مخلوط اقتدار کو بس چھ مہینے ہی ہوا چاہتے ہیں۔ اب یہ دیکھنے کی بات ہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد سے حکومت کتنی ڈانواں ڈول ہوتی ہے اور قومی سیاست کے انداز کتنے بدلتے ہیں۔ یہ منظر کہ شہباز شریف اور آصف زرداری ایک ساتھ بیٹھے ہیں اس لئے حیران کن نہیں ہے کہ ہماری سیاست ہمیشہ سے ’ میوزیکل چیئرز‘ کا کھیل رہی ہے۔

جو کرسی ہاتھ آئے اس پر بیٹھ جائو اور اگر ٹیلی وژن والے پرانے بیانات چلاتے رہیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اب شاید ہی کوئی سیاسی رہنما ایسا بچا ہو کہ جس نے اپنے عمل سے کسی پرانے عہد سے بے وفائی نہ کی ہو ۔ یہ کہنا تو بالکل مناسب ہے کہ سیاست میں نہ کوئی دائمی دوست ہوتا ہے نہ دشمن لیکن ہماری سیاست میں موقع پرستی اور وفاداری کا ڈھونگ رچانے کی رسم مسلسل چلتی رہی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں کون کون بیٹھا ہے۔ اور اب وفاداریوں کی قیمت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہماری سیاست کے بازار میں خرید وفروخت کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوتا۔اس وقت بھی نہیں جب خود سیاست کو تجاوزات کی ایک شکل سمجھ کر مہندم کیا جاچکا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کی تبدیلی سے، نئے سرے سے ابھرتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی سے ، معیشت کے شعبے میں جاری بدنظمی سے اور تحریک انصاف کی حکومت کی لڑکھڑاہٹ سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا ۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ یہ سوال کسی سے بھی پوچھیں تو بغیر کسی توقف کے جواب یہی ہوگا کہ عام لوگوں کی حالت بگڑتی جارہی ہے اور اس میں بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی ۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو گزشتہ سے پیوستہ کی بات ہے۔ایسے ہی چل رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ صورت حال ویسی ہی رہے تب بھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا۔ لوگ کیا کچھ، کب تک برداشت کرسکتے ہیں کسی کو معلوم نہیں۔

یہ بھی واضح نہیں کہ اگر عدلیہ میں ، انتظامیہ میں یا حکومت میں ایسے افراد موجود ہیں کہ جو اپنی پوری قوت اور دیانت داری کے ساتھ حالات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔ یہاں مجھے اپنے اس اخبار میں بدھ کوشائع ہونے والی ایک دو کالمی سرخی یاد آگئی۔ اتفاق سے یہ جسٹس ثاقب نثار کے دور کے آخری دنوں کی ایک نشانی بھی ہے ۔ سرخی یہ ہے ’’ آپ لوگ کام نہیں کرسکتے۔ ملک سے محبت بھی کم ہوگئی ۔ چیف جسٹس اسد عمر پر برہم۔‘‘ اس خبر کا تعلق نئے گج ڈیم کی تعمیر کے کیس سے تھاجس کی وضاحت ضروری نہیں۔ لیکن یہ دیکھئے کہ سابق چیف جسٹس نے ملک سے محبت کم ہوجانے کی بات کی تھی ۔ اگر ملک سے محبت کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ کوئی کتنا کام کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری کس طرح نباہتا ہے توبالکل جائز ہے۔

لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے سینے پر حب الوطنی کا تمغہ سجائے پھررہا ہے۔ اور وطن کا جو حال ہورہا ہے اس کو بیان کرنامشکل ہے۔ ان حالات میں ہم میں سے ہرایک کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ سوچے کہ وہ اس معاشرے اور اس ملک سے وفاداری کا مطلب کیا سمجھتا ہے اور اس ضمن میں اس کی اپنی ذمہ داری کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری مختلف ہے۔ یہ اہم ہے کہ کس کے پاس کتنی طاقت ہے۔ کتنا اختیار ہے۔ اس طاقت اور اختیار کے استعمال کا عام آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ بنتا ہے۔ نئے چیف جسٹس نے جمعرات کو فل کورٹ ریفرنس میں جو تقریر کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کے اس پورے نظام کی بڑی میز پر جو دوسرے افراد براجمان ہیں انہیں اپنی ذمہ داری کا کتنا احساس ہے۔ انہیں اپنے ملک سے کتنی محبت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے