آخر کب تک ظلم سہیں گئے؟

آج تقریباً 6 دن کے بعد انٹرنیٹ اور فیسبک کو ایکٹیو کیا تو معاشرے کے انتہائی ذی شعور اور بااعتماد دوستوں کی چند پوسٹوں کو دیکھتے، پڑھتے ہوئے عجیب سا گمان ہوا کہ ان گزرے ہوئے 6 دنوں میں کیا قیامت برپا ہو گئی ہے؟حیرانگی کے اس عالم میں ان پوسٹوں میں لکھے ہوئے چند جملوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوا جیسے ضرور کوئی ایسا سانحہ رونما ہو چکا ہے جس نے مجھ جیسے عام شخص سے زیادہ ان با شعور اور ذی وقار لوگوں کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو بڑے سے بڑے سانحات پر بھی ملکی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہمیشہ ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنقید کے نشتر نہیں چلاتے اور کوشش کرتے ہیں کہ حکومت اور ادارے مظبوط ہوں۔

جب معاملہ کی تہہ تک پہنچا تو بے اختیار اپنے نونہالوں پر نظر ٹکا دی اور اس سوچ میں محو ہو گیا ۔۔یا اللہ تقریباً 14 سال پردیس میں رزق حلال کی جستجو کے بعد تبدیلی کی ہوا سے متاثر ہو کر بہترین روزگار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اس لئے پاکستان میں آیا تھا کہ اس سانحہ کو سنتا۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیٹزن پورٹل پر چند ہفتے قبل ایک درخواست کچھ اسی سوچ کے ساتھ انتظامیہ کو بھیجی تھی کے اورسیز پاکستانی ہونے کی حیثیت سے پاکستان میں واپسی پر حفاظتی نقطہء نظر سے اسلحہ لائسنس کا متمنی ہوں جس کے جواب میں اسلام آباد انتظامیہ نے کمال پھرتی سے جواب دیا کے چونکہ اسلحہ لائسنس پر پابندی ہے اس لئے آپ اس درخواست کی درخواست قابل قبول نہیں۔۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب اور بے گناہ شہریوں کو اپنی حفاظت کے لئے اگر اسلحہ رکھنے پر پابندی موجود ہے تو غیر قانونی اسلحہ کی اسمگلنگ،منڈیوں اور خرید فروخت پر اس طرح سے عمل کیوں نہیں جس طرح سے ہمسایہ ملک بھارت میں ہے۔۔

قانون نافذ کرنے والوں کو اوپن فائرنگ اور فری ٹو کل (Fee to kill) کا لائسنس کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے۔

راؤ انوار جیسے کلرز کو حکومت اور عدلیہ پروٹیکشن دیتی ہے لیکن غریب کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے جس کا کیس سالوں عدالتوں میں چلتا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ہے۔

تبدیلی کی حکومت کے دعویداروں کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے ہوئے تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو پابند بنائیں کہ وہ بھی قانون سے ماوراء نہیں ہیں اور انکے خلاف تین ماہ کے اندر عدالتی کارروائی کے تحت مجرم ثابت ہونی کی صورت میں موت کا پھندا انکا نصیب ہوگا۔

پاکستان کی تاریخ میں ساہیوال کے واقعے کی صورت میں ایک اور بدنما داغ پاکستان کے چہرے پر سجا لیا ہے۔اس واقعے نے پاکستان کے اس باشعور طبقے کی سوچ و فکر کو بھی متاثر کیا ہے جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی ملک کے اداروں پر بھروسہ کو ترجیح دیتے تھے اور ملکی استحکام میں ان اداروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوششیں کیا کرتے تھے۔

وزیراعظم پاکستان وقت کی رفتار سے قانون سازی پر توجہ دیں اور عدلیہ کو بھی غریب اور لاچار عوام کی دادرسی کے لئے قانونی سقم بالائے طاق رکھتے ہوئے میرٹ پر فیصلے کرنے ہوں گئے۔ایسا نہ ہو کے یہی غریب اور لاچار عوام بے بسی کی چادر کو اتار پھینکتے ہوئے قانون کی جھوٹی دیواروں کو گراتے ہوئے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنے ہوئے معزز عدلیہ کے ججوں کے بڑے بڑے بنگلوں کو روندتے ہوئے انہیں ان بنگلوں سے باہر نکال کر دم لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے