انکار…

یہ سانحہ پہلی دفعہ پیش نہیں آیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں ایسے سانحے پیش آتے رہے جن میں ریاست نے ماں کی بجائے ایک قاتل کا کردار ادا کیا۔ قاتل کے خلاف ہر طرح کے ثبوت موجود تھے لیکن قاتل کو کبھی سزا نہیں ملی کیونکہ قاتل طاقتور اور مقتول کمزور تھے۔ مقتولین کو کبھی دلاسے دے کر اور کبھی ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا گیا۔ کہا گیا قاتل کے خلاف آواز اٹھانا ملک دشمنی ہے اور وسیع تر ملکی مفاد میں کئی اندوہناک سانحات کو بھلا دیا گیا لیکن کچھ سانحات پوری قوم کی نفسیات پر اثر ڈالتے ہیں اور سب کو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بس میں بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔ کافی سال پہلے ایسا ہی ایک سانحہ باجوڑ میں پیش آیا تھا جس پر میں نے عمران خان کے ساتھ مل کر بہت شور مچایا تھا۔ عمران خان کے ایک پرانے ساتھی نے مجھے یہ سانحہ دوبارہ یاد دلایا۔ مجھے سانحہ تو یاد تھا لیکن تفصیلات بھول چکا تھا۔ اس نے کہا کہ عمران خان کی کتاب ’’پاکستان، اے پرنسل ہسٹری‘‘ میں یہ واقعہ اور اس کے کردار محفوظ ہیں۔ 2011ء میں یہ کتاب شائع ہوئی تو خان صاحب نے اپنے آٹو گراف کے ساتھ یہ مجھے عنایت کی تھی۔

تھوڑی تگ و دو کے بعد یہ کتاب مجھے اپنی لائبریری سے مل گئی۔ اس کتاب میں عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ریاستی اداروں کی طرف سے اپنے بے گناہ اور نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مثالیں پیش کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف باجوڑ کے صدر خلیل الرحمان کا ذکر کیا۔ عمران خان لکھتے ہیں کہ ایک دن خلیل الرحمان اپنے علاقے میں اپنے خاندان کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک ہیلی کاپٹر اُن کے اوپر نمودار ہوا۔ خلیل الرحمان نے فوراً گاڑی روکی اور گاڑی میں سوار تمام افراد ہینڈز اَپ کر کے باہر آ گئے لیکن اس دوران ہیلی کاپٹر سے اُن پر فائرنگ شروع ہو گئی۔

عمران خان نے لکھا کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں خلیل الرحمان کا ایک بھائی اور بھتیجا مارے گئے اور اس کا سات سالہ بیٹا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گیا۔ آگے چل کر عمران خان لکھتے ہیں کہ میں خلیل کو لے کر پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹاک شو ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں پہنچ گیا جہاں خلیل نے کہا کہ میں پاکستان کے لئے جان بھی دے سکتا ہوں لیکن اس واقعے کے بعد میں اپنے خاندان کے افراد کو طالبان میں شامل ہونے سے کیسے روک سکتا ہوں۔

کیپٹل ٹاک میں خلیل الرحمان اور عمران خان کی گفتگو نشر ہوئی تو ایک طوفان آ گیا۔ ہر طرف گالیاں اور ملک دشمنی کے الزامات شروع ہو گئے۔ ریاستی اداروں نے اپنی ناراضی کا اظہار پیمرا کے ذریعے کیا اور سیاسی مخالفین نے عمران خان کو طالبان خان قرار دے دیا۔ جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا تو ایک انکوائری کا اعلان کیا گیا۔ 2008ء میں پیش آنے والے اس واقعے کی انکوائری رپورٹ سامنے لانے کے لئے عمران خان کچھ عرصہ تک سرگرم رہے پھر وہ خلیل الرحمان کو بھول گئے۔

نہ 2013ء میں خلیل الرحمان کو تحریک انصاف نے ایم این اے کا ٹکٹ دیا نہ 2018ء میں ٹکٹ دیا۔ 1996ء میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والا خلیل الرحمان 2019ء میں بھی تحریک انصاف کا حصہ ہے اور شاید اسی لئے عمران خان کے ایک پرانے ساتھی نے مجھے خلیل الرحمان کے ساتھ پیش آنے والے سانحے پر عمران خان کا ردعمل یاد دلایا۔ عمران خان کا یہ پرانا ساتھی مجھے کہہ رہا تھا کہ 2008ء میں جب ریاست ظلم کرتی تھی عمران خان آپ کی اور باقی میڈیا کی مدد سے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا تھا۔ آج ہمارا لیڈر اس ملک کا وزیراعظم ہے اور سانحہ ساہیوال پر جب میڈیا سوالات اُٹھاتا ہے اور حکومت کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے تو پیمرا وہی کردار ادا کر رہا ہے جو ماضی کی حکومتوں کے دور میں ادا کیا جاتا رہا۔

سانحہ ساہیوال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک دس سالہ معصوم بچے عمیر کو یہ ہمت دی کہ اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے والدین اور بڑی بہن کے وحشیانہ قتل کی اصل حقیقت کو بے نقاب کر دیا ورنہ اُسے بھی ریاستی ادارے ایک دہشت گرد کا بیٹا قرار دیتے۔ ظلم پر ایک اور ظلم یہ کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس بچے کو ملنے اسپتال پہنچے تو ایک گلدستہ اُن کے ہاتھوں میں تھا۔ پاکستان کے کسی شہری، دیہاتی یا قبائلی علاقے میں یہ روایت نہیں کہ آپ کسی کے ماں باپ کے قتل کے بعد اُس کے پاس جائیں تو آپ کے ساتھ گلدستے بھی جائیں۔ جب وزیر اعلیٰ وہاں پہنچے تو بچہ سو رہا تھا لیکن اُنہوں نے سوئے ہوئے بچے کے سرہانے گلدستہ رکھ کر تصویر بنوائی لیکن اس تصویر سے اُن سب اہل وطن کے دلوں کو مزید ٹھیس پہنچی جو پہلے ہی سانحہ ساہیوال پر غمزدہ تھے۔

عثمان بزدار سے میری کوئی ذاتی مخاصمت نہیں بلکہ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تو میں نے اُن کی بھرپور حمایت کی کیونکہ اُن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ کچھ دن پہلے وہ اسلام آباد میرے گھر تشریف لائے تو کہا کہ میرے علاقے کے لوگ آپ کو ملنا چاہتے ہیں کسی دن میرے ساتھ تونسہ شریف ضرور چلیں۔ میں نے فوراًہامی بھر لی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ آپ کے چھ ماہ پورے ہونے والے ہیں اب آپ کو عمران خان کی حمایت کے ساتھ ساتھ اچھی کارکردگی کو بھی اپنی طاقت بنانا ہو گا۔ مجھے افسوس ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد عثمان بزدار ہماری توقعات پر پورا نہیں اُترے۔ عمران خان کو قوم کے غم و غصے کا اندازہ ہو چکا تھا لیکن عثمان بزدار کو بروقت اندازہ نہ ہو سکا اور انہوں نے خلیل کے خاندان کو ایف آئی آر درج کرانے کے لئے لاشوں کے ساتھ سڑکوں پر آنے کی زحمت دی۔

وزیراعظم کے ایک ساتھی افتخار درانی مجھے بتا چکے ہیں کہ دس سالہ زخمی عمیر کے پاس گلدستہ عثمان بزدار نہیں لے کر گئے تھے بلکہ ایک اور صاحب نے اُن کے ہاتھ میں دے دیا تھا لیکن بزدار صاحب نے گلدستہ اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟ خدانخواستہ اُن کے خاندان میں کوئی قتل ہو جائے اور میں وہاں گلدستہ لے کر پہنچ جائوں تو اُن کا کیا ردعمل ہو گا؟ بزدار صاحب نے کہا تھا کہ سانحہ ساہیوال پر جے آئی ٹی رپورٹ 72گھنٹوں میں آ جائے گی۔

رپورٹ تو نہ آئی لیکن کچھ پولیس افسران کو ٹرانسفر ضرور کر دیا گیا ہے۔ ریاستی اداروں کا دعویٰ ہے کہ خلیل اور اس کا خاندان بے گناہ تھا لیکن ذیشان دہشت گردوں کا ساتھی تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف میں عندلیب عباس اور زرتاج گل وزیر جیسی بہادر اور باضمیر خواتین بھی ہیں۔ عندلیب عباس نے سانحہ ساہیوال پر مظلوم خاندان سے معافی بھی مانگی اور ذیشان پر لگائے گئے الزام کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ زرتاج گل وزیر نے قوم کے آنسوئوں میں اپنے آنسو شامل کئے اور ریاستی بیانیے کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ کل یہی انکار عمران خان کی پہچان اور ان کی طاقت تھا۔ آج حکومت میں آ کر اُنہیں اپنی پہچان برقرار رکھنا ہو گی۔ قاتل کے ساتھ نہیں مقتول کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا اور قاتل کے الزام سے انکار کرنا ہو گا کیونکہ آج چند خوشامدیوں کو چھوڑ کر پوری قوم سانحہ ساہیوال پر قاتلوں کا موقف جھوٹ قرار دے رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے