خان صاحب آنے میں بیس سال لگ سکتے ہیں جانے میں نہیں!

بطور صحافت کے طالب علم کے ہر اس عمل کے خلاف رہا اور رہوں گا جو اس ملک کے مفاد کے خلاف ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح تبدیلی کو سپورٹ کیا اپنے لیے اپنے ملک کے لیے۔
حالیہ سانحہ ساہیوال پے میرے لکھے گے کالم اس بات کے گواہ ہیں ۔

ملک اور ملکی سلامتی کے امور ہر بات پے مقدم ہیں اور جو بھی ان کے بگاڑ کا سبب ہو گا وہ بلا تفریق ہماری تنقید اور مخلافت کا نشانہ ہو گا ۔

ہمیں اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ذات برادری سے بالا تر ہو کر اور عقیدت کے خمار سے باہر آکر سوچنا ہو گا نہ صرف آج کےلیے بلکہ اپنے آنے والے کل کے لیے۔ اس کے لیے پارٹی کوئی بھی ہو اگر وہ پاکستان اور اس کے عوام کے لیے مفید ہے تو ہم اس کے ساتھ ہیں ۔

تازہ ترین مثال دو واقعات سانحہ ساہیوال اور دوسرا حکومت کا کل پیش کردہ اصلا حاتی پیکج یا منی بجٹ ہے ۔

اول ازکر کہ جس میں حکومتی بد انتظامی بدحواسیاں، عروج پر نظر آئیں اور حکومت کا اپنے ادارے کی غفلت کا بے جا پردہ داری بلکل پہلے والی حکومتوں کا پرتو نظر آئی اور یہ بات سمجھ سے بالا تر لگی کہ آخر ایک سامنے کے واقعہ کو ان کو سمجھنے میں کیا مشکل پیش آ رہی ہے اور ایک ادارے کے ظلم کو کوراپ کرنے کی ضرورت آخر اس حکومت کو کیوں پیش آ رہی جو انصاف کے نعرے کی سیڑھی چڑھ کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھی ہے ؟

ملک عزیز دو داہیوں سے دہشت گردی جیسے مسائل سے دو چار ہے اور بلاشبہ ملکی سلامتی کے ادارے اس کی بیخکنی کے لیے سر گرم عمل بھی نظر آئے ۔ اس بحث سے قطہ نظر کہ ہم کس کی جنگ لڑتے لڑتے اپنے گھر کے اندر تک لے آے ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم اپنے ادروں کا ساتھ دیں جو اب اس آگ کو بجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قوم نے بجا طور پر ساتھ دیا بھی اور مال و جان کی قربانی دی ۔ جس کے نتیجے میں بلاشبہ امن آیا مگر ساتھ ہی ساتھ ملک بھی ایک قلعہ کی صورت اختیار کر گیا ملک کا کوئی کونہ نہیں ملے گا جہاں لا انفورسمنٹ کے جوان ، چوکیاں اور چیک اپ نظر نہ آتا ہو ۔

دہشت گردی بذات خود ایک عذاب تھی جس سے یہ قوم نبرد آزما تھی اور بعد میں دہشت گردی کے نتیجے میں اٹھائے گے اقدامات سے نبرد آزما ہے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل حقیت ہے کہ نائن الیون نے جہاں دشمن اور دوست کی جو نئی اصطلاہیں متعارف کراہیں وہاں ہمیں بھی ایک نئے عذاب میں ڈال دیا کہ جو شخص داڑھی اور نماز روزے کا پابند نظر آے وہ ہماری لاانفورسمنٹ ایجینسیز کا سب سے آسان حدف سمجھا جانے لگا کسی بھی واقعہ کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے۔

اور اس کی آڑ میں ناجانے کتنے لوگ ٹکھانے لگے خاص کر پنجاب اور بلوچستان میں ۔

اور اس روش نے ماوراے عدالت قتل عام کے دراوزے کو کھول دیا ۔آئے روز سننے کو ملتا ہے کہ آج قانون نافظ کرنے والے اداروں نے اتنے دہشت گرد مار دیے اور ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ و بارود اور خودکش جیکٹس برآمد کر لیں ہیں اور بعد میں وہ اسلحہ ٹی وی کے سامنے پیش کیا جاتا رہا اور داد وصول کی جاتی رہی ۔

مگر حالیہ ساہیوال واقعہ کے بعدجے آی ٹی رپورٹ میں جہاں یہ بتایا گیا کہ یہ قتل کی واردات تھی وہاں یہ بھی بتایا گیا کہ سی ٹی ڈی کی طرف سے گاڑی سے برآمد اسلحہ اور خودکش جیکٹس بعد میں رکھی گیں معاملے کو دہشت گردی ثابت کرنے کے لیے ۔

تو اس رپورٹ کی یہ بات ان اداروں کی طرف سے کیے گے بیشتر آپریشنز کو مشکوک سمجھنے کے لیے بہترین جواز فراہم کرتی ہے ۔

پنجاب حکومت نے یہی عمل دھراتے ہوے ایک فیملی کو بے گناہ تو دوسرے پے لیبل لگا دیا دہشت گردی کااور وجہ باریش ہونا بظاہر نظر آتا ہے ۔

یہاں یہ سوال بجا طور پر سر اٹھاتا ہے کہ مان لیا حساس اداروں کو رپورٹ ملی کہ متعلقہ گاڑی میں دہشت گرد جا رےہیں تو کیا یہ حکم دیا گیا تھا کہ جاؤاور ان کو ختم کر دو ۔ اور کیا ایسا نہیں ہوتا کہ ہائ پرفائل ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کے بعد اس کو اپنی کسٹڈی میں لیا جائے فردر انوسٹی گیشن اور ایویڈینس کلیکشن کے لیے۔ نہ کے جاؤ اور مار کے پھینک آؤ ۔ ظلم اور درندگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جو ان ظالموں نے وہ پار کر دی معصوم جان پے بارہ بارہ گولیاں چلاتے وقت۔ حکومت کا یہ کہنا کہ یہ ایک آپریشن تھا تو یہ درست ہے مگر ڈکیتی اور قتل کا ۔

یہاں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت پنجاب یا وفاق کی کونسی مجبوری تھی جو اس کو کور اپ کرنے کے لیے مجبور تھی اور ہے ۔

مگر قوم اس خون ناحق کو اس طرح نہیں چھوڑے گی اور جب تک ظالم اپنے انجام تک نہیں ہہنچتے چین سے رہیں گے نہ رہنے دہیں گے۔

اب اگر بات کی جائے اس واقعہ کے بعد پنجاب حکومت کی چبلوں، حماقتوں کی تو وہ بھی عروج پر نظر آئیں۔ بکواس بیانات تضادات کا ایک طوفان تھا جو ان کے اندر سے نکلتا نظر آیا ۔

اوردل تو چاہتا تھا اگر بس میں ہو تو ہر ایک کی تشریف پے سو جوتے گن کر مارے۔

یہ بات کسی بھی شک کی محتاج نہیں کہ اس واقعہ کو صرف اور صرف سوشل میڈیا اور بعد میں ملک کے مین سٹریم میڈیا، ٹی وی چینلز نے جب اجاگر کیا تو دیکھنے والی ہر آنکھ اشک بار نظر آئی اور سانحہ اے پی ایس کے بعد ایک بار پھر بلا شبہ ہر فرد نے یہ درد نہ صرف محصوص کیا بلکہ قاتلوں کو ان کے انجام تک پہچانے میں ہم آواز نظر آئی جس کی وجہ سے حکومت جلد حرکت میں نظر آئی باوجود اس تمام عوامی دباؤ کےپہلی "ایف آی آر "واقعہ کے آٹھارہ گھنٹوں بعد لکھی گی اور وہ بھی نہ معلوم افراد کے نام۔ ( اور یہی وہ بات ہے جس سے شک جنم لیتا ہے کہ حکومت کو کیا آفت آئی ہوئی ہے ایک ظلم کی بے جا کور اپ کی)۔

جس حکومت کے بقول یہ ایک سوچا سمجھا آپریشن تھا اس کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ اس میں شامل کون لوگ ہیں یا وہ نام سامنے لانا ہی نہیں چاہتے تھے ۔

خیر جے آئی ٹی بنی اور 72 گھنٹوں میں رپورٹ آ گی۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے باقی تمام پارٹیوں نے اس واقعہ پر کھل کر سیاست چمکائی اور ابھی تک اس معاملے پر ان کی سیاست بازی جارہی ہے ۔

جبکہ ان کے اپنے دور حکومت میں ماڈل ٹاون لاہور میں حاملہ عورتوں کو گولیاں ماری گیں اور جب اس وقت کے شہباز شریف عرف عام خادم اعلی سے انکوائری میں سوال کیا گیا تو موصوف کا جواب تاریخ میں بیغیرتی کی مثال قائم کرنے والوں کی فہرست میں اول درج ہوگا جناب فرماتے ہیں کہ جس دن واقعہ ہوااس دن میرا افیشل ٹائم 9 بجے شروع ہوا تھا یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے تو اس اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں اور نہ کسی افلاطونی دماغ کی ضرورت ہےکہ ہمارے یہ نام نہاد لیڈر بے شرمی کے کس درجے پر براجمان ہیں ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی حکومت اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود 72 گھنٹوں میں ایک ابتدائی رپورٹ دینے میں کامیاب ہو گی جس سے لواحقین کے ساتھ ساتھ عوامی غصہ بھی کچھ کم ہوا۔

اور اس سب کے باوجود وزیر اعظم نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے تو یہ فرق تو دکھنا چاہیے پہلے اور بعد کی حکومت میں۔

دوسرا بہتر فیصلہ معاشی پیکج کے اعلان میں رلیف دینے کے حوالے سے ہے جس کا اپوزیشن کی طرف سے عوام میں ایک منفی پراپیگنڈہ پھیلانے کی کوشش کی گی تھی کہ پانچ میں حکومت دوسرا بجٹ لا رہی ہے اور حسب معمول حکومتی ترجمان عوام کو خاطر خواہ طریقے سے بریف نہ کر سکے کہ دراصل وہ کرنا کیا چاہ رہے ہیں جس سے بلا شبہ عوامی سطح پر غصے کی ایک کفیت پای جا رہی تھی اور دوسری جانب کاروباری طبقہ کے ساتھ ساتھ انوسٹر بھی بے یقینی کی صورتحال اور گومگو کا شکار تھا ۔

اس لحاظ سے پانچ ماہ کے اندر اندر ایک اصلاحاتی پیکج لانا حکومت کا احسن اقدام کہلا سکتا ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی تھی ۔ جس سے معاشی صورتحال کنٹرول ہو گی یہ کام پہلے بجٹ میں اگر ہو جاتا تو آج ملک میں معاشی انارکی نظر نہ آتی مگر یہاں حکومت کا یہ موقف نہ ماننا بھی بہت بڑی زیادتی ہو گی کہ اس سے پہلی حکومت مال مفت دل بے رحم کے مصداق قومی خزانے کے نام پر چند کوڑیاں چھوڑنے کے ساتھ قرضوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ کر گی تھی جس کو موجودہ حکومت نے برادر ممالک سے قرض اور امداد لیکر سنبھالا۔

اور پانچ ماہ لگے حکومت کو سنبھلنے میں ورنہ یہ تو دن گن رہے تھے حکومت کے!تو موجودہ پیش کردہ تخمینہ فل حال غریب دوست ہی میں سمجھوں گا باوجود اس کے ابھی تک غریب نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر بہت دور ہے مگر مجھ سمیت ہر پاکستانی روکھی سوکھی کھا لینے کو تیار ہے اگر اس کو لگے کہ حکمران ملک کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں ۔

اور ویسے بھی واپس پرانے پاکستان جانے کے لیے قطی طور پر کوئی بھی تیار نہیں مگر اس حقیت کو بھی حکومت کو ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ عوام جس عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھ کے سامنے لائے تھے.

اس کو ووٹ دیا ، اپنی امید کا مرکز بنایا اگر اس بار اس کے خواب کی تعبیر الٹی دی گی تو خان کو آنے میں تو بقول ان کے بیس سال لگے جانے میں بیس دن بھی شاہد ہی لگیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے