سانحہ ساہیوال ،انصاف کا انتظار

کراچی میں بری حکمرانی سالہا سال اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتی رہی۔ بوریوں میں لاشوں کے ٹکڑے کر کے کچرے پر پھینکتی رہی۔ لاہور میں ایسی ہی ایک بری حکمرانی ماورائے عدالت قتل کرتی رہی‘ اسی قتل کا سلسلہ چلتے چلتے اب ساہیوال میں رونما ہونے والے انتہائی خوفناک واقعہ تک جا پہنچا ہے۔ محترم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے مذکورہ واقعہ کے بارے میں قوم کو یقین دلایا ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے گی۔ مذکورہ واقعہ بدترین سیاسی حکمرانی کی ایک مثال ہے‘ لیکن یہ پچھلی سیاسی حکمرانیوں کی حکمرانی کا تسلسل ہے۔ موجودہ حکومت تحریک انصاف کی حکومت ہے وہ بدتر حکمرانی میں تبدیلی کا نعرہ لے کر حکومت میں آئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اب پولیس اور عدلیہ کے پورے سسٹم میں تبدیلی آنی چاہئے۔

یہ تبدیلی آ گئی تو محترم عمران خان صاحب کی حکمرانی مبارک بھی ہو گی اور ریاست مدینہ کی یاد کو بھی تازہ کرے گی (ان شاء اللہ) جب آرمی پبلک سکول پر خارجی اور تکفیری عناصر نے حملہ کیا تھا‘ معصوم بچوں اور خواتین و مرد اساتذہ کو شہید کیا تھا تو تب جنرل (ر) راحیل شریف آرمی چیف تھے۔ انہوں نے شدید ترین ایکشن لیا۔ دہشت گردوں کو سزائیں ملیں۔ موجودہ آرمی چیف جناب محترم جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کے زمانے میں ”ردّ الفساد‘‘ کے عنوان سے یہ سلسلہ جاری رہا اور آج الحمدللہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں بری حکمرانی جس میں پولیس کے لوگ ہی نچلی سطح پر ظلم کر جاتے ہیں‘ ان کو سزائیں ملنی چاہئیں اور شدید ترین سزائیں ملیں۔

اس لئے کہ ان کے کردار سے پوری ریاست بدنام ہوتی ہے‘ جیسا کہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے قاتلوں کو عبرتناک مثال بنانے کا اعلان کیا‘ ایسا ہونے سے یقینا آئندہ پاکستان جیسی ریاست بدنام نہ ہو گی‘ بلکہ نیک نام ہو گی کہ جسے پاک فوج کے سات ہزار نوجوانوں نے بے پناہ قربانیوں کے ذریعے قوم کو امن دیا ہے۔ پولیس میں بھی اچھے لوگوں نے قربانیاں دے کر اپنا حصہ ڈالا ہے‘ مگر پاکستان جیسے محبوب وطن کو بدنام بھی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے ہی کیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پولیس کو ایسے عناصر سے پاک صاف کر دیا جائے‘ جو عدلیہ کے فرائض بھی خود ہی ادا کر دیتے ہیں اور جلاد بن کر سرعام فوراً سزا بھی دے دیتے ہیں۔ لامحالہ ایسے کردار سے ایسے لوگ کانوں سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہو جاتے ہیں۔

حضرت محمد کریمؐ نے حج کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ کے قریب حاجیوں کو ایک مسلمان کی جان کا سبق کچھ اس طرح یاد کروایا تھا کہ جس طرح مکہ حرمت والا شہر ہے ‘اسی طرح ہر مسلمان کی جان حرمت والی ہے۔ جس طرح قربانی کا دن محترم ہے‘ اسی طرح ہر مسلمان کی جان محترم ہے۔ جس طرح حج کا مہینہ عزت و آبرو والا ہے‘ اسی طرح ہر مسلمان کی جان کی عزت و آبرو ہے۔ (بخاری:67)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضورؐ کو طواف کرتے ہوئے دیکھا ‘اللہ کے رسولؐ نے کعبہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے کعبہ! تو کس قدر شاندار ہے‘ تیری خوشبو کس قدر پیاری ہے‘ تیرا مرتبہ کتنا عظیم ہے‘ تیری حرمت کتنی زیادہ ہے‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے۔ مومن کے مال و جان کی حرمت اللہ کے ہاں تیری حرمت سے زیادہ ہے۔ (صحیح ابن ماجہ 3932 صحیح)

قارئین کرام!ہمارے پیارے رسولﷺ جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ‘انہوں نے یہ تعلیم دی کہ جانورکو ذبح کیا جائے تو اسے چھری نہ دکھائی جائے ۔ایک انصاری شخص نے بکری کو ذبح کرتے وقت اپنا پائوں بکری کی گردن پر رکھا اور چھری تیز کرنے لگ گیا۔حضورﷺ نے یہ منظر دیکھا تو سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :تم اس جانور کو ایک نہیں کئی اموات سے دوچار کررہے ہو۔تم نے پہلے ہی چھری کو تیز کیوں نہ کرلیا۔(سلسلہ صیححہ للالبانی )اس طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی خلاف اسلام ہے ۔اللہ اللہ !ایک طرف ہمارا اسلام جانوروں کی نفسیاتی حالت کا بھی خیال رکھتا ہے ‘جبکہ میرے ملک کی پولیس کے پانچ اہلکار بچوں کی موجودگی میں ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔یہ کیسی تربیت ہے اور کہاں کی انسانیت ہے؟

حضرت عمرؓ جو ریاستِ مدینہ کے دوسرے نامور حکمران تھے‘ انہوں نے فرمایا تھا‘ اگر فرات کے کنارے بکری بھی مر گئی تو عمر سے اللہ کے ہاں پوچھا جائے گا۔ آج اسلام آباد سے ساہیوال چھ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ فون کے ذریعے یہ کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ وہاں اتنا بڑا ظلم ہو گیا‘ امید ہے اس ظلم کے بعد تحریک انصاف کی سول حکمرانی پاکستان کو تبدیل کر دے گی‘ بالکل اسی طرح جس طرح پاک فوج نے دہشت گردوں سے پاکستان کو تبدیل کر کے پاک وطن بنا دیا۔

میرے پیارے ملک پاکستان میں پراسیکیوشن کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج سے ہی جھوٹ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جھوٹے گواہ ڈالے جاتے ہیں۔ سچے گواہ جان کے ڈر سے بھاگتے ہیں۔ عدالت میں وکیل حضرات کی اکثریت مقدمے کو لمبا کرتی ہے۔ جج حضرات بھی تاریخوں پر تاریخیں ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ مظلوم فریق بھی بے پناہ پیسہ خرچ کر کے کئی سال کے بعدمنصف کی دہلیز پر فیصلہ سننے کے دن کو سامنے پاتا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟

موجودہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نیک نام چیف جسٹس ہیں‘ ان کے بیانات بھی بڑے اچھے آئے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے بارے میں حکمرانوں سے کہا ہے کہ وہ قانون سازی کریں ‘تاکہ عدالتی نظام کو جلد انصاف کے جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ آخر پر وزیراعظم پاکستان جناب محترم عمران خان صاحب کے سامنے حضرت محمد کریمؐ کا وہ فرمان پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جب قریش خاندان کی ایک عورت کی سفارش سامنے آئی تھی۔ حضورؐ نے واضح کیا کہ تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک اور برباد ہو گئے کہ ان میں جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں کوئی کمزور آدمی چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے یہ تو بنو مخزوم کی فاطمہ ہے ؛اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی اس کی جگہ ہوتی‘ تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاری:4303)

جی ہاں! یہ ہے مدینہ کی ریاست کی مثال کہ جس میں مؤثر لوگ چاہے ان کا تعلق پولیس جیسے محکمہ سے ہو‘ مگر عدل میں رتی بھر فرق نہیں پڑے گا۔ آج قوم اسی بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا قانون طے پا جائے‘ تاکہ ریاستی عملداری میں پولیس کو دیکھ کر‘ ہر شہری اور ہر بچے اور عورت کو تحفظ کا احساس ہو ناکہ جان جانے کا خوف ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے