10 سال چیلنج: ملالہ کیا کہتی ہیں؟

نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسف زئی نے مقبول سوشل میڈیا ٹرینڈ ’10 سال چیلنج’ میں حصہ لیتے ہوئے ہوئے نہ صرف اپنی 10 سال کی آپ بیتی بیان کی بلکہ سب کو اہم پیغام بھی دیا۔

ملالہ یوسف زئی نے ایک ٹوئیٹ شیئر کرکے لکھا کہ ’جب میں نے 10 سال چیلنج دیکھا تو میں نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کیا، اُس وقت میں 11 برس کی تھی اور اب سب کچھ کتنا بدل گیا ہے‘۔

اس ٹوئیٹ کے ساتھ ملالہ نے اپنا ایک بلاگ بھی شیئر کیا جس میں انہوں نے 11 برس کی عمر سے لے کر اب تک کی آپ بیتی شیئر کی اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

ملالہ اپنے بلاگ میں لکھتی ہیں کہ ‘گزشتہ ہفتے میں نے انسٹاگرام پر 10 سال چیلنج کو بہت انجوائے کیا، جس کے دوران میں نے دوستوں کی بچپن کی تصاویر اور نامور شخصیات کی مقبول ہونے سے قبل ماضی کی تصاویر دیکھیں۔ اس ہیش ٹیگ کے تحت 4 ملین سے زائد صارفین نے اپنی پوسٹس شیئر کرتے ہوئے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا، جنہیں دیکھ کر میری بھی 10 سال پرانی یادیں تازہ ہوگئیں جب میں 11 برس کی تھی’۔

ملالہ یوسف زئی نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’15 جنوری کو پوری وادی نے ایک خوفزدہ کرنے والی آواز ریڈیو پر سنی، جس میں طالبان کے مقامی رہنما نے کہا کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہوگی، یہ اسلام کے خلاف ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’امن ہم سے بہت دور تھا، ہم دہشت گردی اور تشدد کی فضا میں جی رہے تھے، فائرنگ اور بمباری کی آوازیں وادی میں روزانہ سنائی دیتی تھیں، دو سے تین افراد کو گرین اسکوائر پر ہلاک کرنے کی خبر کو سننا کوئی نئی خبر نہیں رہی تھی اور لوگ اسے’دی بلڈی اسکوائر‘ کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ یہ وہ وادی ہی نہیں رہی تھی جہاں میں دو سال پہلے رہتی تھی، چیزیں تیزی سے بدل گئیں تھیں‘۔

[pullquote]اب لڑکیاں اسکول جاسکیں گی![/pullquote]

ملالہ نے لکھا، ‘جب میں 11 برس کی تھی تو میں اپنے مستقبل اور آزادی کے حوالے سے فکرمند تھی، میں لکھنا، پڑھنا اور سیکھنا چاہتی تھی، یہی وجہ تھی کہ میں اور میرے والد سرگرم ہوئے، ہمیں پتہ تھا کہ جب تک ہم آواز نہیں اٹھائیں گے اور پابندی کے خلاف نہیں بولیں گے تب تک تبدیلی ممکن نہیں‘۔

انہوں نے بتایا، ‘میں نے ڈائری لکھی جو کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے روزانہ شماریے میں شائع ہوئی، ان تحریروں کو دس برس بعد پڑھ کر اب بھی لگتا ہے کہ میں لڑکیوں کی آواز سن رہی ہوں جس میں یادیں، شبہات، امید اور احتیاط ہے۔ یہ وہی احساس ہے جو مجھے پوری دنیا میں، اسکولوں میں یا پناہ گزین کیمپوں میں لڑکیوں کی آواز سن کر ملتا ہے’۔

انہوں نے مزید لکھا، ‘اُس وقت کچھ بچیاں پر اُمید تھیں کہ اسکول پھر سے فروری میں کھل سکیں گے جبکہ کچھ کے والدین نے سوات سے دوسرے شہروں میں منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا تاکہ بچیوں کو تعلیم دلوائی جاسکے’۔

ملالہ کے مطابق ’14 جنوری 2009 کو وادی سوات میں میرے اسکول کا آخری دن تھا جبکہ 14 جنوری 2019 کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں میرے لیکچر کے دوسرے حصے کی شروعات ہوئی۔ میں جانتی ہوں کہ میں بہت دور آچکی ہوں اور میں اس بات کو سراہتی ہوں کہ میں اپنی کہانی بیان کرنے کے قابل ہوں، لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ 130 ملین لڑکیاں اب بھی اُن حالات سے گزر رہی ہیں جن سے میں 10 برس پہلے گزری تھی’۔

ملالہ لکھتی ہیں کہ جب میں 10 سال پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو میں بہت شکر ادا کرتی ہوں لیکن مجھے غصہ بھی آتا ہے کہ کیوں اب تک کئی لڑکیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔

انہوں نے لکھا، ’میرا خون کھول جاتا ہے جب متعدد حکمران تمام مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن 13 ملین بچیوں کی تعلیم کا مسئلہ ان کی فہرست میں شامل نہیں ہوتا، انہیں فکر ہے تو صرف معیشت، مرکزی طاقت، تنازعات اور سیاست کی، برا مت مانیے لیکن بچیوں کی تعلیم ایسے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے’۔

آخر میں ملالہ نے اپنی خدمات کو نمایاں کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں ہر دن اپنی بہنوں کے لیے کام کر رہی ہوں تاکہ انہیں اسکول جانے میں مدد مل سکے، میں ہر بچی کے لیے چاہتی ہوں کہ انہیں کم از کم 12 برس تک اسے معیاری تعلیم و تحفظ دیا جائے تاکہ وہ اپنے خواب پورے کرسکے اور دنیا کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن یہ سب میں تنہا نہیں کرسکتی‘۔

ملالہ نے مزید لکھا کہ ‘اگر آپ میری کہانی سے متاثر ہوئے ہیں تو میں امید کرتی ہوں کہ آپ بچیوں کی تعلیم کی جنگ میں میرے ساتھ شامل ہوں گے’۔

ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات سے ہے جنہیں 2009 میں 12 برس کی عمر میں اسکول سے واپسی پر دہشت گردوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد ان کو علاج کے لیے لندن لے جایا گیا اور وہ اب وہیں مقیم ہیں۔

ملالہ اس وقت لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، ساتھ ہی وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں جس کے لیے ملالہ فنڈز کا قیام عمل میں لایا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے