بائیس جنوری کو ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ کے زیرعنوان اپنے کالم میں استاد محترم سہیل وڑائچ نے جو لطیفہ تحریر کیا ، وہ مجھے محترم محمد علی درانی نے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ایک اور پیرائے میں سنایا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک نابینا سردار جی کو کم عمری سے شراب پینے کی عادت ہوگئی تھی۔ نابینائوں کی باقی حس چونکہ تیز ہوتی ہیں اس لئے وہ یہ کمال حاصل کرگیا تھاکہ شراب کا گھونٹ پیتے ہی بتا دیتا کہ یہ شراب کی کونسی قسم ہے اور کس کمپنی کی تیار کردہ ہے۔ ایک دن ان کے دوستوں کو شرارت سوجھی۔
انہوں نے کئی کمپنیوں کی شراب ایک بوتل میں ملا دی۔ اس میں پھر کولڈ ڈرنکس وغیرہ کی ملاوٹ بھی کردی۔ دوستوں نے نابینا شرابی کے سامنے اس کوکٹیل کی بوتل رکھی اور چیلنج دیا کہ اگر اس شراب کو بنانے والی کمپنی کا نام انہوں نے بتادیا تو بڑا انعام حاصل کرلیں گے۔ نابینا شرابی اسے پی پی کر سوچتا رہا لیکن کسی نتیجے تک پہنچنے کی بجائے کنفیوژ ہوتا رہا۔ ظاہر ہے اس میں سب کمپنیوں کا مال ملایا گیا تھا۔ آخر میں کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ یہ نئی کمپنی مارکیٹ میں آئی ہے لیکن اس کا نام جو بھی ہے چلنے والی نہیں ۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی بھی اسی طرح کی کوکٹیل ہے اور اس کی حکومت بھی۔
پارٹی دیکھیں تو اسد قیصر کا پس منظر کچھ اور ہے تو پرویز خٹک کا کچھ اور ۔ شاہ محمودقریشی کے مقاصد کچھ اور ہیں تو جہانگیر ترین کے کچھ اور ۔ فواد چوہدری حد درجہ لبرل اور لیفٹسٹ ہیں تو مولانا نورالحق قادری پکے مذہبی ۔ اعظم سواتی ایک انتہا ہے تو علی محمد خان دوسری انتہا ۔ اسد عمر کا سیاسی اور فکری قبلہ کچھ اور ہے تو ندیم افضل چن کا کچھ اور۔ انیل مسرت کسی اور وجہ سے طاقتور ہیں جبکہ زلفی بخاری اور علی زیدی کسی اور وجہ سے ۔ بزدار کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہے جبکہ محمود خان کے پیچھے ایک لاڈلے کا ۔ غرض ایک زبردست کوکٹیل ہے جو پی ٹی آئی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ پھر اگر حکومت دیکھی جائے تو جیسے شراب کی مختلف قسموں کے کوکٹیل کے ساتھ اس میں مختلف کولڈ ڈرنکس بھی ڈال دی گئی ہوں ۔
ایک طرف اس میں اختر مینگل صاحب کی جماعت کی کولڈ ڈرنک شامل ہے ۔ دوسری طرف اس میں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کا ہر موسم میں اور ہر جگہ دستیاب شربت ملایاگیا ہے ۔ شیخ رشید احمد کی وہسکی اس کے علاوہ ہے ۔ اخترمینگل کی جماعت کی کولڈ ڈرنک تو پھر بھی کسی حد تک خالص ہے لیکن مسلم لیگ(ق) اور ایم کیوایم کی کولڈ ڈرنکس تو پہلے سے مارکیٹ میں بہت بدنام ہیں ۔ چنانچہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی یہ نئی کوکٹیل مارکیٹ میں بری طرح فلاپ ہونے جارہی ہے ۔ یہ کوکٹیل چونکہ بڑی محنت سے قوم کے وسیع تر مفاد میں تیار کرکے مارکیٹ میں لائی گئی تھی ، اس لئے ہماری دعا تھی کہ یہ چل سکے لیکن لگتا ہے کہ کوئی دعا اثر کررہی ہے اور نہ دوا اور شاید یہی وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف اتفاق فیکٹری کے اپنے سابقہ اور آزمودہ مشروب کی مارکیٹ میں دوبارہ اہمیت پیدا ہونے کے بارے میں بہت پرامید ہوگئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے مارکیٹنگ منیجرز پریشان ہیں۔
پی ٹی آئی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈے کے زور سے بنی ہے ، پروپیگنڈے کے زور سے چلتی رہی اور پروپیگنڈے کے زور سے اقتدار میں آئی ہے ۔ اس کے رہنمائوں کی تربیت صرف اور صرف پروپیگنڈے کے فن میں ہوئی ہے اور اقتدار میں آکر بھی وہ پروپیگنڈے کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی میں آگے بڑھنے کا واحد پیمانہ بھی یہی پروپیگنڈا رہا ہے ۔ وہاں نہ حیثیت کو دیکھا جاتا تھا، نہ ماضی کو اور نہ صلاحیت کو ۔ جو لوگ ٹی وی پر آکر ، زبان چلاکر عمران خان صاحب اور پی ٹی آئی کی زیادہ تعریفیں کرسکتے تھے اور مخالفین کو زیادہ سے زیادہ لتاڑسکتے تھے ، انہیں پارٹی میں پوزیشن بھی ملتی، انتخابات کے لئے ٹکٹ بھی ملتے اور پارٹی قیادت کی قربت بھی حاصل ہوتی ۔
چنانچہ پارٹی میں اسی کام کے لئے مقابلہ زوروں پر رہتا اور پارٹی عہدیداروں نے صرف اس کام کی تربیت پائی ہے ۔ ہر پارٹی لیڈر نے اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیم رکھی ہوئی تھی اورمیڈیا ہی کو وہ اپنا بنیادی ہتھیار سمجھتے رہے ۔ سیاہ کو سفید اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے فن میں جو کمال پی ٹی آئی کے لوگوں نے حاصل کیا ہے ، پاکستان کی دوسری جماعتیں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں ۔ چنانچہ اقتدار ملنے کے بعد بھی ساری توجہ اسی بات پر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں معیشت جیسا اہم سبجیکٹ تنہا ایک بندے کے حوالے کیا گیا ہے ، وہاں میڈیا اور پروپیگنڈے کے لئے ایک درجن سے زیادہ لوگ رکھے گئے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری، فیصل جاوید ، افتخاردرانی، نعیم الحق ،یوسف بیگ مرزا ، طاہر اے خان ، ارشد خان اور اسی طرح کئی نابغے اسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔
خود عمران خان صاحب بھی میڈیا اداروں اور اینکرز کو ڈیل کررہے ہیں ۔ کسی اور محکمے کا اجلاس ہو یا نہ ہو لیکن روزانہ دن کا آغاز میڈیا منیجروں کے اجلاس سے ہوتا ہے ، جس میں ناکامی کو کامیابی ، دن کو رات اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ وفاقی سطح پر وزرا، مشیروں اور وزارتوں سے محروم رہنے والوں کے کئی گروپ بن گئے ہیں ۔ پارٹی میں شامل کرائے گئے روایتی سیاستدان وزارتوں سے محرومی پر مایوس ہیں۔ پارٹی کے تجربہ کار لوگ سیاسی نابالغوں کو اہم وزارتیں دینے پر برہم ہیں ۔ پارٹی رہنما اور ایم این ایز فریاد کررہے ہیں کہ وزیراعظم کو تین چار افراد نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔
شکایت کرتے ہیں کہ انہیں وزیراعظم کے سیکرٹری تک رسائی نہیں لیکن دوسری طرف بابر اعوان، اعظم خان ، یوسف بیگ مرزا اور فیصل جاوید وغیرہ ان کے اور ملک کے مستقبل کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے اپنے بھائی کو وزیراعظم کا اے ڈی سی بھی لگوادیا ہے جبکہ باقیوں نے مختلف جگہوں پر اپنے بندے فٹ کردئیے ہیں ۔ میڈیا پر صرف وہی چند لوگ دفاع کررہے ہیں جو وزیراعظم کی نظروں میں آکر سرکاری عہدے لینے کے متمنی ہیں ۔ جن لوگوں کو اہم عہدے اور وزارتیں مل گئی ہیں ، وہ ان کو انجوائے کرنے یا پھر اپنے پائوں جمانے میں مگن ہیں اور حکومت کا دفاع کرنے ٹی وی پر نہیں آتے ۔ پنجاب اور عثمان بزدار کا تو بہت تذکرہ ہورہا ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات وہاں سے بھی زیادہ خراب ہیں تاہم بوجوہ میڈیا میں جگہ نہیں پارہے ہیں ۔
بلوچستان میں تو وزیراعلیٰ کے خلاف مضبوط گروپ بن گیا ہے ۔ بزدار صاحب کے مقابلے میں اگر علیم خان ، چوہدری پرویز الٰہی اور گورنر چوہدری سرور زیادہ طاقتور ہیں تو محمود خان کے مقابلے میں پرویز خٹک،ارباب شہزاد، شاہرام ترکئی ، عاطف خان اور گورنر شاہ فرمان زیادہ طاقتور ہیں ۔ پختونخوا میں تو باقاعدہ وزیراعظم نے نوٹیفکیشن کے ذریعے وزیراعلیٰ کے بعض اختیارات گورنر کو دے دئیے ہیں ۔ بزدار صاحب تو پھر بھی مضبوط ہیں کہ ان کی سفارش وزیراعظم ہائوس میں بیٹھی ہے لیکن محمود خان کی سفارش ایک لاڈلے نے کی ہے،جو کسی بھی وقت واپس ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ یہ رائے عام ہوگئی ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کا مشروب مارکیٹ میں زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ بزدار صاحب مارچ میں اور محمود خان جون میں وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے۔ جہاں تک وزیراعظم کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں سردست یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پانچ سال پورے نہیں کریں گے۔ البتہ تبدیلی کب آئے، یہ ایک دو ماہ تک واضح ہوجائے گا۔