زندگی کے لیے سات مفت مشورے

ہر نیا دن ایک نئی مصیبت کا آغاز ہوتا ہے یا رحمت کا، اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے، مگر کیا محض دولت کا ہونا کافی ہے؟ جی نہیں، میں آپ کو اس قسم کی باتیں سنا کر بور نہیں کروں گا کہ زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل چیز انسان کا اخلاق ہے، پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی، غریب آدمی رات سکون کی نیند سوتا ہے، امیر کو اپنی دولت کی فکر رہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ افیون کی گولیاں دولت مند افراد ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ان کی دولت سے حسد کرتے ہیں، اگر ایسی بات نہ ہوتی تو دینا کے تمام امیر لوگ سکون کی نیند کے عوض اپنی دولت کسی مطمئن غریب سے تبدیل کروا لیتے۔

کچھ باتیں البتہ امیروں، غریبوں اور سفید پوشوں کی زندگی میں مشترک ہوتی ہیں، ہر کسی کا ان سے پالا پڑتا ہے، ان باتوں کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں، کوئی گھڑا گھڑایا حل نہیں، وقت اور تجربے کے ساتھ ہر انسان یہ باتیں سیکھتا ہے، انہیں آپ درس حیات(Life Lessons) بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح آج میں نے زندگی کے یہ چنداسباق لکھے ہیں۔

پہلا سبق یہ ہے کہ صحت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اگر آپ صحت مند ہیں تو پھر دولت بھی کمالیں گے، حاسدین سے بھی نمٹ لیں گے، زندگی کی دوڑ بھی جیت لیں گے، خوشیاں بھی سمیٹ سکیں گے، اگر صحت نہیں تو پھر یہ سب بیکار ہے، پھر عہدہ، شہرت، امارت کسی کام کے نہیں، ایک بیمار شخص کو صحت مند دنیا زہر لگتی ہے، اسے لگتا ہے جیسے ہنستے کھیلتے لوگ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں۔

بے شک بیماری پر کسی کا زور نہیں، ہم میں سے کوئی بھی کسی وقت بیمار ہو سکتا ہے مگر صحت کا خیال رکھنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، بداحتیاطیوں اور بدپرہیزیوں سے اجتناب ہمارے اختیار میں ہے، ہم اتنے بھی مجبور نہیں کہ آٹھ ڈبل روٹیوں والے سینڈوچ کو انکار نہ کرسکیں جو پیٹ میں جاکر سائیکل کی گدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ رہی بات یہ کہ صحت کا خیال کیسے رکھا جائے تو اس کے لیے دنیا جہان کا مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، روزانہ دس گلاس پانی پینے سے لے کر بیس منٹ واک کرنے تک، فقط عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی میرا نئے سال کا عہد نامہ یہی ہے کہ روزانہ کم ازکم دس ہزار قدم کی ٹہل کی جائے گی، دیکھئے اس برس پورا ہوتا ہے یا نہیں، ابھی تک تو نہیں ہوا!

دوسرا سبق یہ ہے کہ زندگی آپ نے اکیلے گزارنی ہے، اس کی مشکلات کا تنہا سامنا کرنا ہے، اس کی آزمائشوں سے خود ہی نمٹنا ہے، آپ کے ماں باپ، بہن بھائی، اولاد، دوست احباب ضرور آپ کا ساتھ دیں گے مگر جو تکلیف، پریشانی یا تناؤ آپ کے حصے میں آئے گا وہ آپ ہی کو سہنا پڑے گا، یہ بات جتنی جلد سمجھ آجائے اتنا ہی اچھا ہے، اگر آپ کے دوست رشتہ دار آپ سے مخلص ہیں تو آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں، یہ آپ کی پریشانی میں کمی کا سبب بنیں گے، ایسے لوگو ں کی فہرست بنائیں، اگر تعداد پانچ سے زیادہ نکلے تو خود کو دنیا کا سب سے دولت مند شخص سمجھیں۔

دوسرے درجے میں ان لوگوں کو رکھیں جو یوں تو آپ کے خیر خواہ ہیں مگر برے وقت میں سوائے اظہار افسوس کے کچھ نہیں کر سکتے، فی زمانہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر کسی کی زندگی بہت مصروف اور کٹھن ہو چکی ہے، تیسرے درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو آپ سے منافقانہ تعلق رکھتے ہیں، ان سے محتاط رہیں۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ لوگوں کو اسی پیمانے پر پرکھیں جس پیمانے پر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پرکھیں، اگر آپ کا کوئی دوست بنیادی طور پر ایک اچھا انسان ہے، آپ کا مخلص اور خیر خواہ ہے تو یہ خوبی بہت ہے، آپ کی یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے کپڑوں کا ذوق بھی اعلیٰ ہو، وہ ڈنر کے ادب آداب سے کسی نجیب زادے کی طرح واقف ہو اور اس کا علم و مطالعہ بھی وسیع ہو۔ ہر شخص میں ہر خوبی نہیں ہوتی بالکل اسی طر ح جس طرح ہم میں ہر خوبی نہیں۔ دنیا میں اچھے انسانوں کا قحط ہے، سو اگر آپ کو کسی اچھے انسان کی صحبت میسر ہے تو اس کا فائدہ اٹھائیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلق خراب نہ کریں۔

بعض اوقات آپ ہر ہاتھ ملانے والے کو اپنا اتحادی سمجھ لیتے ہیں اور ہر اجنبی کو ناقابل اعتماد، ضروری نہیں کہ ایسا ہو، لوگوں کو ان کے بلند بانگ دعوؤں کی روشنی میں نہیں بلکہ ان کے اعمال کی روشنی میں جانچیں، زندگی ہمیں اکثر حیران کرتی ہے جب ہمیں وہاں سے کمک ملتی ہے جہاں سے ہمیں ایسی کوئی امید ہی نہیں ہوتی اور وہاں سے گزند پہنچتی ہے جہاں سے نقصان کا ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے،جس طرح دو لوگ ایک ہی قسم کے ماحول میں یکسر مختلف انداز میں اپنا ردعمل دیتے ہیں اسی طرح ہر شخص کا مختلف معاملات پر مختلف ردعمل ہوتا ہے، اگر ہم کسی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں تو ضروری نہیں باقی لوگ بھی آپ ہی کے ’’لینز‘‘ سے اس مسئلے کو دیکھیں، لہٰذا لوگوں سے امید نہ رکھیں کہ وہ محض اس وجہ سے آپ سے اتفاق کر لیں گے کہ آپ درست ہیں اور وہ غلط۔ اسے چوتھا سبق سمجھیں۔

انسانوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے، کچھ لوگ بلاوجہ جھوٹ بولتے ہیں، کچھ محفل میں اہمیت حاصل کرنے کے لیے،کچھ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے، کچھ شیخی بگھارنے کے لیے، کچھ اپنے فائدے کے لیے، کچھ دوسروں کے نقصان اور بدنامی کے لیے اور کچھ محض عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ لوگوں کی باتوں پر اعتبار کرنے سے پہلے ان کے دعوے کو پرکھ لیں، جن باتوں کے جھوٹ سچ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں بے شک نظر انداز کر دیں مگر جن باتوں کی روشنی میں آپ نے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ کرنا ہے انہیں محض اس وجہ سے درست نہ مان لیں کہ آپ کے کسی جاننے والے نے اس بابت کوئی بیان جاری کر دیا ہے۔ کسی کے جھوٹ کی وجہ سے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ غلط کر لینے کا پچھتاوا بہت برا ہوتا ہے، اس پچھتاوے سے بچنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے،یہ پانچواں سبق تھا۔

زندگی میں کوئی کلین چٹ نہیں ہوتی، کوئی گارنٹی نہیں ہوتی اور کوئی ایسی ضمانت نہیں ہوتی جس کے ملنے کے بعد آپ سمجھیں کہ اب کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں آئے گی، اب میں نے اتنی دولت کما لی ہے کہ اب کوئی ٹینشن نہیں، شاید اکا دکا لوگوں کے بارے میں یہ بات درست ہو مگر اکثریت کے بارے میں زندگی سنگدلی سے ہی کام لیتی ہے، لہٰذا یہ سوچ دماغ سے نکال دیں کہ کوئی ایسا نسخہ آپ کو مل جائے گا جس سے آپ کی زندگی کی تمام مشکلات حل ہوجائیں گی، جو انسان ہمیں آسودہ اور مطمئن نظر آتے ہیں ان کی زندگی کی تمام مشکلات حل نہیں ہوئی ہوتیں بلکہ ان میں مشکلات سے نمٹنے کی ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے۔ سو چھٹا سبق یہی ہے کہ زندگی میں کوئی کلین چِٹ تلاش کرنے کی بجائے خود میں وہ صلاحیت پیدا کی جائے جو زندگی کی پریشانیوں سے نمٹنے میں کام آئے۔

زندگی کا ساتواں سبق پھر کبھی سہی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے