کتنے لگیں گے دام‘ ذرا آنکھ تو ملا

یہ مقدمہ ”کیپیٹل کٹنگ‘‘ کے ٹاپ لینڈ مافیا کے خلاف تھا۔ بوٹینیکل گارڈن اور بنی گالا میں علیحدہ علیحدہ سینکڑوں کنال سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قابض۔ جی ہاں، گن پوائنٹ پر۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی صاحب کی عدالت میں بحث ختم کی۔ لاء آفس میں دن 11 بجے آسٹریلوی ہائی کمیشن کے ہیڈ آف ڈومیسٹک، پولیٹیکل اینڈ ہومین رائٹس ٹیم ہز ایکسی لینسی مسٹر ہگ بوئے لان سے 60 منٹ کی ملاقات طے تھی۔ راستے کی ٹریفک نے مجھے ساڑھے سات منٹ لیٹ کر دیا‘ حالانکہ ہائی کورٹ سے لاء آفس کا راستہ ہی صرف 8 منٹ کا ہے۔ گھنٹہ بھر کی گفتگو میں سے 3 چیزیں یہاں بیان کرتا ہوں۔

پہلی امن و امان، انویسٹمنٹ میں آسانیاں، منی لانڈرنگ پر کنٹرول اور بیرونی سرمایہ کاروں سے کِک بیک کمیشن خوری کا خاتمہ ایسے اقدامات ہیں، جن سے پاکستان میں دلچسپی رکھنے والی دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری بات اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ مسٹر ہگ بوئے لان نے کہا: عمران خان کو سڈنی اور میلبرن کے کرکٹ شائقین ہی نہیں بلکہ سارے آسٹریلوی پسند کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ بتائی کہ آسٹریلیا کے صحرا کو بھی پاکستانیوں نے آباد کر ر کھا ہے۔

میرے لیے یہ دلچسپ انکشاف تھا۔ 1860ء میں آسٹریلیا کی حکومت نے آبادی میں اضافے کے لیے امیگریشن اوپن کی تو بلوچستان کے کافی سارے ساربان وہاں منتقل ہو گئے تھے۔ یہ لوگ جاتے ہوئے اپنے اونٹ بھی ساتھ آسٹریلیا لے گئے۔ آسڑیلیا کی کل آبادی 24 ملین ہے۔ جس میں 6 لاکھ پاکستانی بھی وہاں بستے ہیں۔

امریکہ سے افریقہ تک اور انگلستان سے متحدہ ہندوستان تک اُن ملکوں کی ترقی کو کوئی میچ نہیں کر سکتا‘ جن کے ہاں اوپن ویزا پالیسی اور اجنبی دیار کے لوگوں کے آنے جانے میں آسانیاں رکھی گئی ہیں۔

خیر سے اپنے ہاں ویزا بھی سیاست کے لیے استعمال ہوتا رہا ۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے ملکوں میں پاکستانیوں کے داخلے مشکل سے مشکل تر ہو گئے ۔ ایک لمبے عرصے تک ویزے پر وزارتِ داخلہ کا کنٹرول رہا۔ بلکہ کئی حکومتوں میں صرف وزیرِ داخلہ کا۔ جس کی وجہ سے بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوسوں کے لیے تو راستے کھلے رہے ۔ لیکن سیاحت کی دنیا اُجڑ گئی ۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت نے 175 ممالک کے شہریوں کے لیے ویزے اوپن کر د ئیے ہیں۔ ساتھ ثقافتی ، سیاحتی پالیسی بھی نظرِ ثانی کی زد میں ہے ۔ اس لیے تبدیلی کا مطلب ہر شعبۂ زندگی میں کام کرنے کے انداز اور نقطۂ نظر میں تبدیلی ہی با معنی ہو گی۔ آج تک دو رنگی راج نیتی اور دو غلی طرزِ فکر کی وجہ سے ہم نے سارے قومی دکھ اُٹھائے ہیں۔ پوٹھوہاری زبان میں اسے ”دو پیری ‘‘ بھی کہتے ہیں‘ جس کا مطلب ہے کچھ قدم آگے اور کچھ قدم پیچھے رکھنا۔

اس دو پیری کی تازہ مثا ل شہرِ پاکستان کراچی میں بال بکھرائے کھڑی ہے۔ وہ جو چا ئنہ کٹنگ کے خلاف گلے پھاڑتے نہیں تھکتے تھے ۔ سپریم کو رٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جناب جسٹس گلزار احمد صاحب کے حکم کی زد میں ہیں۔ اہل کراچی کو معلوم ہے پبلک پارکس ، عوامی سہولت کی کھلی جگہوں اور یوٹیلٹی پلاٹس پر شادی ہال اور مارکیوں کا مالک کون ہے ۔

جسٹس گلزار احمد صاحب کا عزم ہے کہ وہ شہرِ کراچی کو اپنی اصل شکل میں واپس لا ئیں گے۔ اُن کا حالیہ حکم نامہ آ ئین کے آ رٹیکل 184 (3) کی منشاء کے عین مطابق ہے۔ یہ بات ہے تو رسوائی کی لیکن 100 فی صد سچ ہے۔ اور وہ یہ کہ اکثر شہری نما ئندے اب پرا پر ٹی ڈیلروں اور کبا ڑیوں کے نما ئندے بن کر رہ گئے ہیں۔ کراچی میں ایسی ہی سیاسی واردات 2 مختلف الخیال گماشتوں نے شروع کر دی ہے۔ بھتہ خور شادی کی بکنگ، کھانے کی بکنگ، پارکنگ کی بکنگ ہاتھ سے کھسکتی دیکھ کر وحشت زدہ ہیں۔ ڈیلروں کے یہ وہیلر ریاست کی سب سے بڑی عدالت کے سینئر ترین جج کے آرڈر کو مذاق مت جانیں۔ اسی میں ان کا بھلا ہے۔ اگلے دن ایک ذمہ دار صاحب ملنے آ ئے کہنے لگے جونہی کسی پرا پرٹی ڈیلر کے مفاد پر زد پڑ تی ہے‘ پانچ سات عوامی نما ئندے پراپرٹی ڈیلر یا کبا ڑئیے کو فرشتہ ثابت کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں ۔

وہ مجھ سے اس مرضِ نا گہانی کا علاج پو چھنے لگے ۔ ساتھ بولے: کیا میں عدالتی چارہ جو ئی کر سکتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: اس چارہ جوئی سے آپ کو شہرت تو حاصل ہو جائے گی لیکن مقصدیت نہیں۔ بہتر یہ ہے ڈیلروں کے وہیلروں کو معقولیت کے ساتھ حقِ سماعت دے دیا کریں‘ لیکن سنیں صرف اور صرف حضرتِ قا ئد اعظم ؒ کی بات ۔ کسی کے کہنے پر بھی کچھ غلط نہ کریں ۔ یہی آ ج قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ آپ ہمت کر یں گے تب ہی دو پیری کا خاتمہ ممکن ہو گا ۔ اس موقع پر میرا خیال دو چیزوں کی طرف گیا ۔ ایک اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ”اے ایمان والو۔ وہ بات مت کہو جو تم خود نہیں کرتے‘‘۔

دوسری! گا ؤں کے ایک بہت فربہ مولوی صاحب کسان کو راستے میں روک کر پُلِ صراط کی باریکی بتانے لگے ۔ دیہاتی نے مولوی کے حلیے پہ ایک نظر ڈالی اور پوچھا مولوی صاحب آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے ۔ مولوی نے کہا: میں پلِ صراط سے بہت آسانی سے گزر جائوں گا۔ کسان یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔ اور اُس کی ہنسی نکل گئی۔ مولوی نے پو چھا: کس بات پہ اتنے خوش ہو ۔ کسان نے جواب دیا ”جے تو ں لنگھ جائیںگا تے فیرِ ساڈیاں وی ستّے خیراں نیں‘‘ اگلے دن فربہ مولوی کی طرح ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ وہ پاکستان کو ڈوبتا دیکھ رہا ہے (خدا نخواستہ)۔ ٹی وی پر میڈیا ٹاکس برپا کرنے والے ایسے ہی ” غریب فن کار‘‘ ہر روز ایسی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ جس ملک سے ہزاروں میں نہیں لاکھوں کما کر گھر لے جا رہے ہیں‘ اس کے بارے میں کوئی اچھی امید افزا بات کہتے ہوئے ان کی زبانیں لڑکھڑا جاتی ہیں۔

پہلے کہتے تھے: کشکول توڑ دو‘ آئی ایم ایف کے پاس مت جائو۔ اب کہہ رہے ہیں آئی ایم ایف کے پاس پہلے ہفتے میں ہی چلے جانا چاہیے تھا۔ اب پاکستان لیٹ ہو گیا۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ایک بینک ہے۔ حلوائی کی دکان نہیں۔

آئی ایم ایف قرض سے پہلے کڑی شرائط لگاتا ہے۔ جو قرض ہمیں دوست ملکوں سے شرائط کے بغیر انویسٹمنٹ کی شکل میں ملا اور مل رہا ہے ‘ اس پر بھی تاریکی فروش ناراض ہیں۔ کئی مہینے تک پروپیگنڈا کیا گیا کاروبار بند ہو رہا ہے۔ اب فنانس ایکٹ میں بزنس فرینڈلی ترامیم کیا آئیں‘ یہی لوگ توا بدل کر کہتے ہیں: سرمایہ کاروں کو بے وجہ فائدہ دیا گیا۔ ایڈم سمتھ اور مارشل کی معاشیات میں یہ فائدہ نہیں Incentive ہیں۔ سٹاک ایکس چینج کا انڈیکس تھوڑا سا گر جاتا تو چنگھاڑتے تھے۔ ایک دن میں انڈیکس نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا تو ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
اے حسنِ لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
کتنے لگیں گے دام! ذرا آنکھ تو ملا
ساقی مجھے بھی چاہیے، اِک جامِ آرزو
اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا

خیر سے اپنے ہاں ویزا بھی سیاست کے لیے استعمال ہوتا رہا ۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے ملکوں میں پاکستانیوں کے داخلے مشکل سے مشکل تر ہو گئے ۔ ایک لمبے عرصے تک ویزے پر وزارتِ داخلہ کا کنٹرول رہا۔ بلکہ کئی حکومتوں میں صرف وزیرِ داخلہ کا۔ جس کی وجہ سے بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوسوں کے لیے تو راستے کھلے رہے ۔ لیکن سیاحت کی دنیا اُجڑ گئی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے