حکومتوں کا زوال۔۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کا خزینہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے اقوالِ زرّیں ہر موضوع اور ہر صورتحال کیلئے موجود ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تھا ’’اقتدار کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ ’’الحکم بیقی مع الکفر ولا بیقی مع الظلم‘‘۔

ابھی جو ساہیوال کا دردناک واقعہ پیش آیا ہے اور اس سے پیشتر ماڈل ٹائون کا قتل عام، اس سے پیشتر بلوچستان میں بیگناہ وسط ایشیا کے باشندوں کا قتل عام، ایسے واقعات ہیں کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عتاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ماڈل ٹائون کا حساب لیا گیا مگر براہ حجت کچھ مہلت دیدی گئی تھی۔ آج ذمہ داروں کی حالت زار دیکھ کر اللہ رب العزّت سے توبہ استغفار کیا جاتا ہے۔ ساہیوال کا واقعہ بھی اُسی طرح ظلم و قتل و غارت گری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔

مجھے اس واقعہ سے بھوپال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہمارے پڑوس میں صوبیدار (ر) حیدر پاشا رہتے تھے، یہ جاگیردار تھے اور انکے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اپنے گائوں والوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اور ان کی زمینیں بزور قوت ہتھیا لیتے ہیں۔ انکا بیٹا کاظم پاشا بھی کچھ کم نہ تھا۔ ایک روز حیدر پاشا کسی گائوں والے کو اُلٹا لٹکا کر زدو کوب کر رہے تھے کہ ایک رحمدل مسلمان ملازم سے یہ دیکھا نہ گیا، اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ دیہاتی وہاں جنگلی جانوروں سے حفاظت کیلئے نیزے رکھتے تھے۔

اس شخص نے نیزہ اُٹھایا اور حیدر پاشا کی کمر میں اس زور سے مارا کہ وہ اس کے سینہ سے نکل گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ کاظم پاشا نے اسکے خاندان پر بہت ظلم ڈھائے۔ ایک روز کاظم پاشا کا بیٹا اسکوٹر پر جا رہا تھا کہ ایک شخص نے قریب آکر اسکے سر میں گولی مار دی اور وہ وہیں مر گیا۔ گویا کاظم پاشا نے باپ اور بیٹے کے قتل کا صدمہ اُٹھایا اور اپنے غلط کاموں کی سزا بھگتی۔

تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک میں ظلم کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کا انجام دیکھ لیجئے۔ انسان اگر پھر بھی سبق حاصل نہ کرے تو اس سے بدقسمت و بدبخت کون ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ظلم و زیادتی کرنیوالوں (یعنی اس کی نافرمانی کرنیوالوں) کو سختی سے انتباہ کیا ہے کہ ان کیلئے سخت عذاب اور جہنم ہے۔ مثلاً

(1)سورۃ آل عمران، آیت 32میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی کرینگے تو سمجھ رکھیں کہ اللہ کافروں سے ذرا بھی محبت نہیں رکھتا‘‘۔

(2)سورۃ النساء، آیت 14میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کریگا اور اسکے احکامات کی حدود سے باہر نکل جائیگا، اللہ اُسے دوزخ کی آگ میں داخل کر دیگا۔ اس میں وہ ہمیشہ پڑا رہیگا اور اُسے ذلّت دینے والا عذاب ملے گا‘‘۔

(4)سورۃ الفتح، آیت 16میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے پہلے تم روگردانی کر چکے ہو تو اللہ تمھیں دردناک عذاب کی سزا دے گا‘‘۔ (4)سورۃ الجن، آیت 23میں اللہ تعالیٰ انتباہ کرتا ہے ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقیناً ایسے لوگوں کیلئے دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے‘‘۔

(5)سورۃ التوبہ، آیت 72میں اللہ تعالیٰ سخت انتباہ کرتا ہے ’’اگر یہ منافق لوگ روگردانی کریں گے تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک سزا دے گا اور ان کا روئے زمین پر نہ کوئی دوست و یار ہو گا اور نہ ہی مددگار‘‘۔

(6)سورۃ النساء، آیت 94 میں اللہ رب العزّت فرماتا ہے کہ ’’تم تو دنیا کی زندگی کا سر و سامان چاہتے ہو، سو یقین رکھو کہ اللہ کے ہاں بہت انعامات ہیں‘‘۔

(7)سورۃ الانعام میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز کھیل کے اور تماشے کے اور یقیناً آخرت کا گھر پرہیزگاروں کیلئے بہت بہتر ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔

(8)سورۃ الانفال، آیت 28میں رب العزّت فرماتا ہے ’’اور خوب جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد سراسر آزمائش کی چیزیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے‘‘۔

(9)سورۃ آل عمران، آیت 10میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا (گناہ کئے) ان کو ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز کام نہ آئینگے اور یہ لوگ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہیں‘‘۔

(10)سورۃ الرعد، آیت 26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور کافروں (گنہگاروں) کیلئے تباہی ہے سخت عذاب کی وجہ سے جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں‘‘۔

دیکھئے! کلام مجید میں سخت انتباہ کیا گیا ہے کہ منافق، مشرک اور وہ مسلمان جنھوں نے بلاکسی جائز وجوہ کے کسی مسلمان کو قتل کیا ان کی ہرگز بخشش نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں عام تقاریر میں، وعظوں میں، خطبوں میں زیادہ تر دنیاوی باتوں میں وقت لگا دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتلاتے کہ وہ جو یہ قتل بلا جواز کرتے ہیں اس کیلئے ان کو نہایت سخت درد دینے والا عذاب جہنم ملے گا۔ اگر قاتلوں کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے کہ اسکا انجام ان کیلئے بہت ہی دردناک مستقل عذاب ہو گا۔ وہ دوزخ میں جلتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی کھال بار بار بدلتا رہیگا کہ وہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں۔ اور انسان کے بدن میں اس کی کھال سب سے زیادہ حساس ہوتی ہے، آپ کی انگلی کبھی ماچس کی تیلی سے جل گئی ہو تو آپ کو اسکا احساس ہوگا۔پچھلے دنوں (23 جنوری) کو وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے ایک اور منی بجٹ پیش کر دیا۔ عوام اور تاجروں کے ملے جلے تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں اکثر لوگ تجربہ کار مگر بے ایمان تھے اور جان بوجھ کر کرپشن میں مبتلا رہتے تھے۔ اس حکومت میں لوگ ناتجربہ کار ہیں اور جو کچھ وہ سمجھتے ہیں یا کوئی اُن سے کچھ کہہ دیتا ہے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ نئے بجٹ میں کافی اچھی باتیں ہیں اور اُمید ہے کہ اس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔بہت پہلے میں نے امریکی پروفیسروں (MIT)کی تحریر کردہ کتاب ’’Why Nations Fail‘‘ پر تبصرہ کیا تھا، اس کتاب یا تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ حکمران خود کم ہی ماہر ہوتے ہیں لیکن وہ اگر سمجھداری سے کام لیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ہماری تاریخ میں حضرت عمرؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز، خلیفہ ہارون الرشید وغیرہ بہت کامیاب حکمراں گزرے ہیں، اُن کی کامیابی کا راز اُن کی مردم شناسی اور اچھی ٹیم کا چنائو تھا۔ ہر شخص ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا۔ مگر سمجھدار حکمراں اچھے، تجربہ کار، مخلص اور ایماندار رفقائے کار کا چنائو کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ خود ساختہ، خودکار ماہرین کے بجائے تجربہ کار بزنس مینوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور معاشی پالیسیاں بنائیں۔

جناب ایس ایم مُنیر، جناب عارف حبیب، جناب زبیر طفیل، سردار یٰسین ملک وغیرہ کی ٹیم سے مشورہ لیں تو یقیناً معیشت بہت جلد اُڑان بھر لے گی۔ نیچے کا کام آپ کمشنروں سے لیں، ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور ان سے نظامِ مملکت میں مدد لیں۔ اسکولوں، کالجوں، ہیلتھ ڈسپینسریوں وغیرہ کو یہ لوگ فوراً فعال کر سکتے ہیں۔ امریکی پروفیسروں نے یہی بتایا تھا کہ اچھے آدمی اچھی جگہ لگائیں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں لوگوں کے تحفظات ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چوہدری سرور اور علیم خان کو حکمرانی دینے کا یہ واحد طریقہ کار تھا۔ بہرحال عوام اب بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کامیاب رہے اور ملک ترقی کرے اور عوام کے معاشی حالات تبدیل ہو جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے