ملا عمر، مینگو باردی

( ایک پرانا کالم، افغانستان کے بدلتے حالات میں آج وہ ملا عمر پھر یاد آیا تو سوچا یہ کالم ایک بار پھر شیءر کر دوں)

سوشل میڈیا نے یاد دلایا کہ آج اس شخص کی برسی ہے جس کا نام ملا محمد عمر تھا اور دنیا جسے ایک دہشت گرد کے نام سے یاد کرتی ہے. اس کی تصویر دیکھی .سادہ سا ایک پشتون، معمولی سے سا لباس اورسر پر سیاہ دستار۔ موبائل ہاتھ میں پکڑے کتنی ہی دیر میں یہ تصویر دیکھتا رہا۔ میں نے بہت چاہا میں اسے نفرت کی نگاہ غلط سے دیکھوں اور آگے بڑھ جاؤں۔ میں لیکن ایسا نہ کر سکا۔ پھر میں نے روشن خیالی کے کم تر درجے کے تقاضوں کے پیش نظر چاہا، اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاؤں۔ افسوس مجھ سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ ایک طلسم کی طرح میں وہیں کہیں وہیں اٹک سا گیا۔ اس کی دستار کے پیچوں میں ہی نظریں الجھ الجھ کر رہ گئیں

میں نے خود کو سمجھایا: امریکہ اسے دہشت گرد کہتا ہے اور سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ امریکہ جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے۔ یہ دہشت گرد کی تصویر ہے اور مجھے اس سے نفرت کرنا ہے۔نفرت کے جذبات مگر مجھے کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکے۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ ایک ذرا صبر کرو اس سے نفرت کے دلائل میں ابھی ڈھونڈ کر لاتا ہوں….. اور پھر چشم تصور مجھے نوے کی دہائی میں لے گئی۔

میں اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہا تھا جب افغانستان کے منظر نامے پر ملا عمر طلوع ہوا۔ اول اول کوئٹہ کے ولی خان کی زبانی پتا چلا ملا عمر کیا کر رہا ہے، اور ولی خان مولویوں کا کتنا بڑا مخالف تھا اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ مجھے ولی خان نے بتایا کہ اقتدار تو یہاں منتقل ہی بندوق کی نالی سے ہوتا ہے لیکن ملا عمر کے آنے سے یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی عزتیں محفوظ ہو گئی ہیں۔ مجاہدین نما غنڈوں کی بدمعاشی سے تنگ معاشرے نے اسے خوش آمدید کہا۔ دی ٹائمز اور دی ٹیلیگراف نے لکھا کہ افغانستان میں وار لارڈز نے جگہ جگہ بیرئرز لگا کر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا رکھی تھیں۔ اول ان کا کام صرف لوٹ مار تک محدود تھا بعد میں عورتوں اور بچوں کی عصمت دری بھی معمول بن گئی۔حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ ان دنوں وار لارڈز کی ایک لڑکے پر باقاعدہ لڑائی ہو گئی۔

ملا عمر اس صورت حال سے تنگ آ کر مدرسے کے پچاس لڑکوں کے ساتھ اٹھے اور اس سہ پہر وار لارڈ کی لاش اسی کے ٹینک کے ساتھ جھول رہی تھی۔ وار لارڈز سے تنگ سماج نے ملا عمر کا ساتھ دیا۔اس کی اخلاقی قوت کا یہ عالم تھا کہ حکمت یار جیسے جنگجو نے لڑے بغیر سروبی خالی کر دیا۔تو کیا میں اس لیے اس سے نفرت کروں کہ وہ بندوق کے زور پر اقتدار میں آ یا؟ اس سماج میں اور راستہ ہی کیا تھا؟ کیا وہ وار لارڈز سے جا کر ووٹ مانگتا کہ بد معاشی ختم کرو اور مجھے ووٹ دے دو؟ کیا اس دور میں یہ ممکن تھا؟

تو کیا اس سے اس لیے نفرت کی جائے کہ وہ ہٹ دھرم اور انتہا پسند تھا اور عالمی برادری کے ساتھ نہ چل سکا؟ یہ الزام بھی غلط ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر پوست کی کاشت کے خلاف کام کیا اور اس کے ایک حکم پر پوست کی کاشت برائے نام رہ گئی۔ اقوام متحدہ نے اسے کامیاب ترین مہم قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس کا ایک ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان میں پوست کی کاشت میں ۹۹ کمی واقع ہو گئی۔ اس کی رٹ کا یہ عالم تھا کہ ایک حکم جاری ہوا اور افغانستان جیسا معاشرہ غیر مسلح ہو گیا۔

اسامہ بن لادن کے مسئلے پر بھی اس نے راستہ نکالا۔ اس نے کہا امریکہ ہمیں ثبوت دے ہم اسامہ کے خلاف مقدمہ چلاتے ہیں۔ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں تو ہم اسے کسی تیسرے ملک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن ہم اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کر سکتے۔آپ بتائیے اس موقف میں کیا غلط تھا؟

اس پر بے پناہ دباؤ تھا کہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دو اور اسے بھی معلوم تھا امریکہ کی طاقت کا عالم کیا ہے۔لیکن اس نے کہا جو ہماری پناہ میں آ جائے ہم اسے یوں دشمن کے حوالے نہیں کیا کرتے۔ ذرا غور تو فرمائیے یہ’ پشتون ولی‘ کس کی روایت تھی۔ یہ افغان قوم کی روایت تھی۔اس نے قوم کی روایت پر حرف نہیں آ نے دیا۔ قوم پرست آج اسے جی بھر کردشنام دیں لیکن یہ تو مانیں جس طرح اس نے پشتون ولی کی رسم نبھائی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

پھر امریکہ اس پر حملہ آور ہو گیا۔ مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ ملا عمر کا اقتدار ختم ہو گیا۔ وہ در بدر ہو گیا. لیکن کوئی ثابت کر دے اس نے مرتے دم تک پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی بولا ہو۔ یہاں پاکستان کے خلاف پاکستانی سیاستدان بکنے سے باز نہیں آتے۔ وہ تو پرایا تھا لیکن پاکستان کے خلاف نہیں بولا۔

پھر یہاں پراکسی شروع ہو گئی۔ امریکہ اور بھارت کی سرپرستی میں پاکستانی حکومت سے نالاں عناصر کو جمع کیا گیا۔ مجرم عناصر بھی اکٹھے کیے گئے اور ان کا نام طالبان رکھ دیا گی۔میڈیا کی سر پرستی میں پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان سے لڑنے والے یہ طالبان وہی ملا عمر والے طالبان ہیں. لیکن حقیقت مکمل طور پر یہ نہیں تھی۔

آج جب امریکہ کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کے نتیجے میں داعش وغیرہ کے افغانستان میں ٹھکانے تباہ ہوئے تو معلوم ہوا وہاں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لوگ بھی مارے گئے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے لڑنے والے عناصر کی سرپرستی کرتے ہیں اور ان کو طالبان کہا جاتا ہے۔لیکن یہ ملا عمر کے طالبا ن نہیں۔ ملا عمر کے طالبان بطور ایک گروہ کبھی پاکستان سے نہیں لڑے۔ملا عمر کے نام کو نام نہاد روشن خیال سیکولر بیانیہ بھلے جتنا دشنام دے لے لیکن یہ ماننا ہو گا کہ وہ پاکستان کا دشمن نہیں تھا۔

وہ زندہ رہا تو شہرت سے دور اپنی چھوٹی سی کٹیا میں رہا۔ مر گیا تو کسی کو معلوم نہیں کب مرا اورکہاں دفن ہے۔خوارزم شاہ سلطان جلال الدین کی زندگی بھی ایسی ہی تھی۔ ساری دنیا چنگیز خاں سے کانپ رہی تھی لیکن سلطان جلال الدین خوارزم شاہ اس سے لڑتا رہا۔چنگیز خان کو زندگی میں صرف ایک بار شکست ہوئی۔ سلطان جلال الدین کے ہاتھوں۔پھرایک روز وہ غائب ہو گیا۔کسی نے کہا مر گیا کسی نے کہا روپوش ہے۔آج کسی کو نہیں معلوم سلطان جلال الدین کہاں دفن ہے لیکن دنیا اسے جلال الدین مینگو باردی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مینگو باردی یعنی ہمیشہ رہنے والا۔ بہادر اپنی قبروں میں نہیں، تاریخ کے سینے میں جیتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کا سر ولیم ویلس ہو،داغستان کا امام شامل ہو، سر نگا پٹم کا فتح علی ٹیپو سلطان ہو، طرابلس کا عمر مختار ہو، خوارزم کا شاہ سلطان جلال الدین ہو یا قندھار کا ملا عمر۔۔۔۔۔ آپ انہیں پسند کریں یا نا پسند لیکن آپ انہیں مار نہیں سکتے ۔یہ مینگو باردی ہیں۔یہ زندہ رہتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے