کیا یہ بھی نئی29جنوری ہے؟

پاکستان کے حالات میں آئین یا بے آئینی قانون یا لا قانونیت اور انصاف یا بے انصافی کے درمیان جو فرق ہے‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ جو لوگ آئین توڑتے ہیں‘ وہی آئین کی پاسداری کا درس دیتے ہیں۔ جو لوگ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں‘ وہی آئین کو توڑ دیتے ہیں۔جو لوگ آئین کی غیر موجودگی میں کام کرنے والی حکومت کے جاری کردہ قوانین اور ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور پھر آئین توڑ کر قائم ہونے والی حکومت کے ان تمام اقدامات کو آئین کا تحفظ دے دیتے ہیں‘ جو اس نے آئینی تحفظ اور اختیارات کے بغیر کئے ہوں‘ وہی آئین کے احترام کا درس دیتے ہیں۔

یہی لوگ حسب ِ ضرورت اس کھیل تماشے میںا پنے اپنے مفادات کے مطابق نکتے پیدا کرتے ہیں اور اس کھیل میں شریک ہر کردار‘ اپنے مفا د کے حصول کے لئے اختیار کردہ دلائل کو آئینی تقاضوں کا نام دیتا ہے اور عوام بے بس تماشائی کی حیثیت سے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں‘ لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔ یہی کھلاڑی تھوڑی بہت تو تکار کے بعد جب کوئی بار گیننگ کر لیتے ہیں تو وہی چیز آئینی بن جاتی ہے‘ جو کچھ دیر پہلے تک عوام کے سامنے آئین کی خلاف ورزی بنا کر پیش کی جاتی رہی ہو۔ ایسے میں کوئی کیا سمجھے؟ کہ آئین کیا ہے؟ اور بے آئینی کیا؟
قانون اور لاقانونیت کی صورت ِحال بھی یہی ہے‘ جس میں جو کچھ کر گزرنے کی طاقت ہو‘ وہ کر گزرتا ہے اور اس پر غالب آنے کی صلاحیتوں سے محروم لوگ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ طاقتور کا یہ اقدام قانون کے مطابق ہو یا اس کے خلاف‘ عملی طور پر وہی قانون ہوتا ہے۔ کتنی بیوائیں ہوں گی؟ جو قانونی طورسے جائیدادوں کی مالک ہیں ‘مگر غیر مالکان ان پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور وہ بیوائیںان کا کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان بیوائوں کے لئے قانون کیا ہے؟

اور اس غاصب کے لئے بھی قانون کیا ہے؟ اور دونوں کے لئے لاقانونیت کیا ہے؟ کسی کو سمجھ آئے تو مجھے بھی بتا دے۔ ابھی چند روز پہلے پرنٹنگ کارپوریشن کے ایک افسر کو سزا سنائی گئی۔ اس کے جرم کا دائرہ قریباً دو کرو ڑ روپے کی رقم تک محدود تھا۔ وہ قید بھی کاٹے گا اور جرمانہ بھی ادا کرے گا‘لیکن جن لوگوں نے اربوں کی ہیرا پھیری کی‘ وہ یا تو آزاد پھر رہے ہیں یا لوٹی گئی رقم کا دس پندرہ فیصدجرمانہ ادا کر کے‘ باعزت شہری کی حیثیت سے محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین میں سے جو طاقتور کے ساتھ نہیں‘ وہ کسی بھی ضابطے کی خلاف ورزی پر نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے اور جو طاقتور کے ساتھ ہے‘ وہ اسی ضابطے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے کے باوجود‘ نا صرف اپنی رکنیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے‘ بلکہ حکومتی عہدے بھی حاصل کر لیتا ہے اور عام آدمی سوچتا رہ جاتا ہے کہ قانون کیا ہے؟ اور لا قانونیت کیا؟

انصاف اور بے انصافی کے فرق کا بھی پتا نہیں چلتا۔ ایک ہی جیسے مقدمات میں‘ ایک ہی طرح کے فیصلے ہوتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ شواہد اور شہادتوں میں کاری گری سے‘ ایک کھلا مجرم بے گناہی کا سر ٹیفکیٹ لے کر بچ نکلتا ہے اور بے گناہ کو مجرم قرار دے کر سزا دے دی جاتی ہے ۔ ان دونوں کے لئے انصاف کیا ہے؟ اور نا انصافی کیا؟

اس طرح کے معاشرے میں جب آئین کو بنانے توڑنے کے ذمہ دار گروہ‘ آئین کے حوالے دے کر تکرار کرتے ہیں‘ تو ایک عام شہری اس گورکھ دھندے کو سمجھ نہیں پاتا۔ جو لوگ آج وردی اتارنے کی بات کرتے ہیں‘ انہی لوگوں نے باوردی صدر کے دور حکومت میں اسی کے من گھڑت قوانین کے مطابق اسمبلیوں کی رکنیت حاصل کی۔ اسی کے جاری کردہ لیگل فریم ورک آرڈر کو آئین کا حصہ بنانے کے لئے دو تہائی اکثریت مہیا کی اور اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دئیے‘ جس کے تحت ایک زیر ملازمت چیف آف آرمی سٹاف کو آئینی صدر مملکت تسلیم کیا گیا‘ اب وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ وردی غیر آئینی ہے۔ کیوں؟جو وردی ایک سال کے لئے آئینی ہو سکتی ہے‘ وہ تین سال کے لئے آئینی کیوں نہیں ہو سکتی؟ بلکہ ہمیشہ کے لئے آئینی کیوں نہیں ہو سکتی؟ (یہی ہوتا رہا ہے اور ہونے والا ہے) اسلامی اصول عمومی اور دائمی ہوتے ہیں۔

ان میں استثنیٰ یا رعایت نہیں ہوتی خصوصاً آئینی دفعات ان کی تشریح ہو سکتی ہے‘ لیکن انہیں مسخ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سال کے لئے وردی کو آئینی ماننے والے اسے دوسرے سال کے لئے کس منہ سے غیر آئینی کہہ رہے ہیں؟ کیا آئین ان کی مرضی اور منشا کے تابع ہے کہ جب چاہا معطل کر دیا اور جب چاہا نافذ کر دیا؟ ایک فوجی حکمران جب آئین کوتوڑتا یا معطل کرتا ہے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے اور منتخب نمائندے جب آئین کی کوئی شق معطل کرتے ہیں ‘تو وہ جمہوریت پسندانہ کہلاتے ہیں۔ آئین کی ایک شق کی خلاف ورزی بھی اسی طرح غداری ہے‘ جیسے پورے آئین کی خلاف ورزی۔ ایک شق کو معطل کرنے والے بھی مجرم ہیں اور پورا آئین معطل کرنے والے بھی۔

یہ سب ایک جیسے ہیں۔ صرف ہمیں بے وقوف بنانے کے لئے اپنے اپنے حق میں دلیلیں گھڑتے ہیں۔ در حقیقت یہ سارا کھیل ایک دوسرے پر دبائو ڈالنے کی غرض سے سودے بازی کے لئے کھیلا جاتا ہے۔وردی کے نام پر بھی یہاں کھیل ہو رہا ہے۔ جب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ پرویز مشرف وردی وردیں اتاریں گے یا نہیں؟ تو میں پلٹ کر سوال کرتا ہوں کہ ”اگر کسی میں وردی اتروانے کی ہمت ہے تو وہ ایک دن میں اتار دیں گے او ر اگرنہیں تو یہ خواہ مخوا کا ہنگام ہے؟ جو لوگ پانچ سال تک پرویز مشرف کی وردی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے‘ آج وہ کیا بگاڑیں گے؟ یہ وہی لوگ ہیں‘ جنہوں نے خود تین سال کے لئے حکومت پرویز مشرف کی خدمت میں پیش کی تھی‘ یہی لوگ اب چار سال پرانی وردی کو دوبارہ ڈرائی کلین اور استری ہونے کے بعد‘ مزید دو سال کے لئے استعمال ہوتے دیکھیں گے۔ سچ صرف یہ ہے‘ باقی خالی شور ہے ۔ 10) ستمبر 2004ء)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے