اسلام آباد میں “بڑوں “ کی بیٹھک

چھبیس جنوری دو ہزار انیس ایک خوبصورت دن تھا ، اس دن اسلام آباد مارگلہ ہوٹل میں ایک ہی چھت تلے مسجد اور میخانے والے جمع تھے ، ایک ہی چھت تلے دلیل اور غلیل والے جمع تھے ،ایک ہی چھت تلے ملک کی زلفیں سنوارنے اور ملک کو تباہی کے دہانے پہنچانے والے جمع تھے ،اس دن پپس کے ڈائریکٹر جناب عامر رانا صاحب نے مشرق و مغرب کو ایک ساتھ بٹھا دیا تھا ، کعبہ و کلیسا ساتھ ساتھ جڑے تھے.

عمر بتانے والے بوڑھے بھی اس مجلس کا حصہ تھے اور مستقبل کو تسخیر کرنے والے نوجوان بھی ، سبھی نے گفتگو کی ، بات کی گئی بات سنی گئی ، سوال اچھالے گئے ، جواب مانگے گئے ، میں نے دیکھا کہ یہاں شعور کی آواز دھیمی اور شور کی آواز اونچی تھی ، شور چاہتا تھا کہ تالی بجے ، مگر تالی شعور کی دھیمی بات پر زور سے بجتی تھی ، شور بہت چلایا مگر بات نہ بنی ، شور پانی کا بلبلہ ہوتا ہے ، بلبلے کی عمر ہی کیا ہوتی ہے ؟ مگر یہ بات بلبلے کو کون سمجھائے ؟

میری دلچسپی کا سامان سبھی موضوعات میں تھا مگر دو موضوع ایسے تھے جنہیں پوری دلجمعی کیساتھ سنا ، اول تا آخر گفتگو سنی ، خواہش تھی مجھے جواب ملے مگر جواب نہیں ملا.

[pullquote]پہلا عنوان [/pullquote]

مذہب نے پاکستانی ریاست اور سماج کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا.

اس موضوع پر مولانا شیرانی ، قبلہ ایاز ، فتح محمد ملک ، ڈاکٹر سید جعفر احمد اور خورشید ندیم نے گفتگو کی ، یہ سب لوگ بڑے تھے ، انہوں نے اس موضوع پر تو بات نہیں کی باقی ہر موضوع کو چھیڑا ، یہ تقسیم ہند میں کھوئے رہے ، انکی گفتگو اس سوال کی طرف آ ہی نہ سکی ، یہ مولنا مودودی ، مولانا آزاد ، قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال تک محدود رہے ، انہوں نے معاملے کو سلجھانے کی بجائے الجھایا ، انہوں نے پبلک کی توجہ اس سوال سے ہٹا کر لایعنی بحث کی طرف موڑ دی تھی ، یہ ایک دوسرے پر برستے رہے اور اپنے اپنے بتوں کے دفاع میں لگے رہے ، مجلس میں بیٹھے ذمہ داران بھی تقسیم پر ہی سوال اٹھاتے رہے ، یہ بحث گراں گزر رہی تھی.

ماضی اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے سینے سے لگا لیا جائے ، ماضی سبق کے لیے ہوتا ہے ، ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے ، مستقبل کو چھوڑ کر ماضی پر جھگڑے کرنا دانش کے خلاف ہے ، جب سامنے مستقبل بیٹھا ہو تو ماضی پر بڑوں کو جھگڑنا زیب نہیں دیتا.

ان لوگوں کی گفتگو جب اختتام کو پہنچی تو مائیک لیکر قبلہ ایاز صاحب مولانا شیرانی صاحب سے پوچھا ، آپ مذہب کے نمائندے ہیں ، آپ ہمارے بڑے ہیں آپ تقسیم کی بحث سے نکلیں ، اس وقت جو ہوا سو ہوا ،وہ ماضی تھا گزر گیا ، آج ہمیں یہ سوال کا جواب درپیش ہے وہ یہ کہ دنیا کی ترقی میں مذہب کا کردار کیا ہے ؟ آج کا نوجوان یہ سوال پوچھتا ہے مذہب کا کیا فائدہ ہے ؟ آپ ہمیں مذہب کا فائدہ بتائیں ؟ اہل مذہب کو جو سوال درپیش ہے اسکا جواب دیجئے ، دوم مذہب نے پاکستانی سماج کی بہتری میں کیا کردار ادا کیا ؟ اخلاقی جرائم بڑھ رہے ہیں اور ہم انکو روکنے میں کیوں ناکام جا رہے ہیں ؟ اگر اہل مذہب کامیاب جا رہے ہیں تو کامیابیاں بتائیں ، ناکام جا رہے ہیں تو کامیابی کا راستہ بتائیں.

مجھے افسوس ہے کہ ان دونوں لوگوں نے اس سوال پر بحث نہیں کی ، اس سوال کا جواب نہیں دیا ، لوگ چاہتے تھے ان سوالوں کا جواب ملے ، شاید مصلحت آڑے آ گئی ،اور خاموشی کو ترجیح دی گئی، خیال تھا یہ لوگ بولیں گے مگر یہ چپ رہے، ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے ، انسان اپنی غلطی تب ہی دور کر سکتا ہے جب اسے علم ہو کہ غلطی کیا ہے ؟ خامی کہاں ہے ؟ ہم خامیوں کی نشاندہی کو بھی برا جانتے ہیں ، اور یہاں یہی ہوا ، قبلہ ایاز صاحب نے پھر کچھ لب ہلائے ،مولانا شیرانی تو اس طرف آئے ہی نہیں ، انکے ذہن میں وہ بات چل رہی تھی جو انہوں نے روکی تھی ، خورشید ندیم صاحب کے دوبارہ پوچھنے پر بھی وہ اس طرف نہیں آئے ، ہمیں بڑوں نے جواب نہیں دیا ، بڑے جب جواب نہ دیں تو پھر جواب وقت دیتا ہے ، ہمارے بڑوں کو ان سوالات کی فکر ہو تو ہمیں اپنا خون جلانے کی کیا ضرورت ؟

خیر ! وقفہ ہوا ، سیشن آگے بڑھا ، سول ملٹری تعلقات پر بات چیت شروع ہوئی.

سوالات کی نشست عامر رانا صاحب نے سنبھالی ، جوابات فرحت اللہ بابر ، جنرل امجد شعیب اور پرویز ہود بھائی نے دیے، اس بحث میں مکالمہ کم اور مناظرہ زیادہ تھا ، یہ سیشن رات کے ٹی وی شوز جیسا تھا ، یہاں جذباتی ماحول زیادہ تھا ، سول لوگ فوجیوں کو کرپٹ کہہ رہے تھے اور فوجی ترجمان سول لوگوں کو کرپٹ کہہ رہے تھے ، دونوں ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں ،چوریاں بتائی جا رہی تھیں ، ایک دوسرے کے غلط کاموں کا موازنہ کیا جا رہا تھا ، سول لوگ فوجی ترجمان سے حساب مانگ رہے تھے اور فوجی ترجمان ان سے حساب چاہ رہا تھا ، دونوں کی گفتگو میں آئین غائب تھا ، آئین نے ان دونوں کو مقابل نہیں بنایا ، آئین بالادستی کا حق سویلین کو دیتا ہے اور فوج کو ماتحت ادارہ بتاتا تھا ، یہاں ماتحت گریبان چاک کر رہا تھا اور بالادست اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہا تھا ، البتہ ایک فرق تھا ، عوام کی تالیاں بندوق کے ترجمان کیساتھ نہ تھیں ، انہوں نے پوری کوشش کی کہ شہیدوں کے نام پر لوگوں کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جا سکے مگر وہ اس میں ناکام رہے.

گفتگو سنتے سنتے یہ سوال بار بار ذہن میں آیا کیا یہ تالیاں سول بالادستی کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں ؟ جواب ایک ہی تھا جی ہاں ! مگر کب ؟ جب سیاسی جماعتیں فین کلب کے بجائے جمہوری بن جائینگی ، شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا اور نہ دور دور تک نظر آ رہا ہے ، یہ تالیاں فضا میں معلق رہینگی .

اسکے بعد جو سیشن ہوئے وہ بھی اچھے تھے ، لوگوں نے سنا کئی لوگ اٹھ گئے تھے ، لوگ طویل وقت تک نہیں بیٹھ سکتے تھے ، میزبانوں کو یہ پروگرام تین دنوں کا رکھنا چاہیے تھا مگر انہوں نے ایک ہی دن رکھ کر غلطی کی ، اتنی اہم بحث بہت سارے دوستوں کو چھوڑنی پڑی.

[pullquote]دوم [/pullquote]

یہ مکالمہ تھا کوئی جلسہ یا ٹاک شو نہیں تھا ، لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے محفل کہیں کہیں جلسے کی شکل اختیار کر لیتی تھی ، میری رائے یہ ہے کہ ایسے پروگرامز میں ایسے بولنے اور سننے والوں کو بلایا جائے جو مکالمہ کو جلسہ نہ بنائیں، جن کی آواز سنی جاتی ہو ، جنہیں معاملات کی سمجھ ہو ، جو اپنا حلقہ اثر رکھتے ہوں،جو تالی پیٹنے والے نہ ہوں، مکالمہ میں محدود اور ذہین لوگ ہونے چاہیں ، جلسہ تو سیاست دان بھی کر سکتا ہے ، جگہ بھرنی خانہ پری کی علامت ہے ، اہل دانش کو جگہ گھیرنے والوں سے اجتناب کرنا چاہیے ، ایسے لوگ جلسوں میں زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے اچھے لگتے ہیں ، جنرل امجد شعیب جب بات کر رہے تھے تو پیچھے بیٹھے کئی لوگ باتوں میں لگے تھے وہ انکی گفتگو کا تمسخر اڑا رہے تھے ، مجھے کوئی برا لگتا ہے یا اسکے نظریے سے اتفاق نہیں تو اسکا قطعا یہ مطلب نہیں کہ میں بات ہی نہ سنوں.

ایسے پروگرامز میں بات کہنے والوں کو بات سننے والوں کو بلایا جائے ، اور پھر انہی لوگوں کو بلایا جائے جن کی مہمان نوازی کی جا سکے ، جن کے پاس دعوت نامے ہوں ، اللہ میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے