آزادکشمیر،گلگت بلتستان میں میگا پراجیکٹس اورسیکیورٹی کونسل قراردادیں

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بلا شبہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ، بین الاقوامی قانون کے تحت متنازع لیکن پاکستان کے زیر انتظام ہیں- ان کو یونائیٹڈ نیشنز نے ”لوکل اتھارٹی” قرار دیتے ہوئے اس کے کمیشن نے پاکستان کے نمائندوں کو اپنے مکتوب مورخہ 2 ستمبر 1948 میں یوں وضاحت کی ہے کہ ” یہ پاکستان کی ہائی کمانڈ کے مؤثرکنٹرول میں ہیں” ، ہائی کمانڈ کا مطلب یقینآ حکومت پاکستان اور اس کے ادارے ہیں جبکہ دوسرے مکتوب مورخہ 31 اگست 1948 میں لکھا ہے:
Subject to” commission’s Surveillance ‘Local authorities’’ will have full political and administrative control , and will be responsible for law and order and security.”

جبکہ عملی طور صورت حال وہ نہیں ہے کیونکہ ان دونون علاقوں میں “ Effective political and administrative control اور security حکومت پاکستان کے پاس ہے – اس عملی ، زمینی اور ان علاقوں میں نافذ آئینی دستاویزات کی روشنی میں مَیں نے متعدد مقدمات میں یہ قرار دیا ہے کہ آزاد کشمیر پاکستانی آئین کی دفعہ 1(2)(d) کی روشنی میں ، کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک Territories otherwise included in pakistan
کی تعریف میں آتاہے لیکن پاکستان کی حکومت تحریری طور یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ یہ پاکستان کی تعریف میں شامل ہے جبکہ عملی طور اس کو بطور صوبہ چلایا جاتا ہے –

یہی صورت حال گلگت بلتستان کی بھی ہے -اس وجہ سے یہ دونوں علاقے ، پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح اپنے مفادات کا تحفظ نہ تو پاکستان کی پارلیمنٹ میں کرنے کا حق رکھتے ہیں ، نہ ہی CCI, NEC, NFC, IRSA میں جہاں صوبے آپس میں یا مرکز کے ساتھ معاملات کا فیصلہ بحث و تمحیث کے بعد اتفاق رائے سے کرتے ہیں-

ہندوستان نے ریاست کے مقبوضہ حصوں کو اس کے قانونی جواز کے قطع نظر ، ایک آئینی حیثیت دےکر ملکی سطح پر ایسے تنازعات کےحل کا راستہ نکالا ہے جبکہ پاکستان نے اپنے زیر انتظام علاقوں کو متنازع گردانتے ہوئے خود اس پر آئینی جواز اور ان علاقوں کو ان کے استحقاق سے محروم رکھا ہے جو پاکستان کے آئین کے تحت اس کو مل سکتے تھے-

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان معاملات کا فیصلہ پاکستان کی بے رحم بیوروکریسی کرتی ہے جن کی دست برد سے پاکستان کا مسلمہ حصہ مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش) بھی نہیں بچ سکا اور اس نے اپنی سلامتی آزادی ہی میں سمجھی ، مقامی حکومتیں اپنا اقتدار چھن جانے اور وطن دشمنی کے الزام سے بچنے کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتیں جو سماجی اور سیاسی کارکن اور سوشل میڈیا کرتا ہے –

اس آئینی خلاء میں ان علاقوں میں ان کی مقامی حکومتوں کی اجازت و مرضی اور ان کے گوں نا گوں مفادات کا تحفظ کئے بغیر حکومت پاکستان کے مختلف ادارے ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور دوسرے منصوبے شروع کررہے ہیں-

فی الوقت دور رس اہمیت کے حامل ان منصوبوں میں سے نیلم جہلم ، کوہالہ اور دیامر بھاشا ڈیم کے علاوہ CPEC کے تحت متعدد منصوبے زیر تکمیل اور زیر تجویز ہیں – یہ سب بین الاقوامی طور پر مسلمہ Disputed Territories کے اندر ہورہا ہے لہذا ان کا ان ہی بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں حل نکل سکتا ہے جنہوں نے ان علاقوں کو ان ملکوں کے حوالے کیا ہے کیونکہ یہ جس ملک کے زیر انتظام ہیں ، وہاں ان کے مفادات کی نگرانی کا اور کوئی آئینی میکنیزم نہیں ہے-

محولہ بالامکتوب 31 اگست 1948 کی پہلی لائن میں دور رس اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل الفاظ “ Subject to commission’s surveillance “ کا استعمال کیا گیا ہے – کمیشن کے ختم ہونے کے بعد اس کے جملہ اختیارات واپس سلامتی کونسل کو منتقل ہو گئے ہیں -مقامی طور کسی متبادل آئینی طریقہ کار نہ ہونے کے باعث سلامتی کونسل یہ ذمہ داری ادا کر سکتی ہے کیونکہ ان علاقوں کو سلامتی کونسل نے پاکستان کے سپرد کیا ہے –

یہ سارے منصوبے بے شک عوامی اہمیت اور افادیت کے حامل ہیں جن سے ان علاقوں میں خوشحالی آ سکتی ہے ، مملکت پاکستان روشن ہوگا، پہیہ چلے گا ، روزگا مہیا ہوگا لیکن منگلا ڈیم کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کے مقدر کچھ آنے والا نہیں کیونکہ آزاد کشمیر کو”آئینی صوبہ” نہ ہونے کی وجہ سے رائیلٹی ملتی ہے نہ ہی بجلی کی فروخت پر کمایا گیا منافع حتی کہ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے 95% ملازم بھی آزاد کشمیر سے باہر کے ہیں، اس پر ستم یہ کہ استعمال کے لیے بجلی بھی 15 سے 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتی ہے –

سلامتی کونسل کی آپشن گوکہ انتہائی اقدام ہوگا لیکن جب زند گی داؤ پہ لگ رہی ہو تو اس کو بچانا بھی فرض ہے ، جب زندہ رہنا مشکل ہو جائے تو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں . سلامتی کونسل علامتی طور پر ٹرسٹی بھی ہے اور پاکستان کے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر غیر متزلزل بھروسے کے پیش نظر سیکیورٹی کونسل غیر جانب دار مبصر مقرر کرکے اس کا حل نکال سکتی ہے جس طرح United Nations convention on the Law of Sea ( UNCLOS)کے معاہدے کے تحت سمندری حدود اور اس سے منسلک علاقوں کے بین الاقوامی تنازعوں میں غیر جانب دار ثالث مقرر کیے جاتے ہیں-

نیلم جہلم اور کوہالہ پراجیکٹ کی وجہ سے لگ بھگ 50 میل پر محیط رقبہ اور لاکھوں لوگ ہر لحاظ سے بری طرح سے متاثر ہوں گے اوربالآخر ان علاقوں سے انخلاء آبادی نا گزیر ہو جائے گی – نیلم جہلم پراجیکٹ کی وجہ سے نوسیری سے متصل سڑک سرکنے لگی ہے اور وادئ نیلم جو پہلے ہی ہندوستانی افواج کی بر بریت کا شکار ہے، محصور ہوکر رہ جائے گی-

یہ امور بھی بالآخر رائے شماری کے پراسس، زندگی اور بود باش پر پر اثر انداز ہوں گے-ان کا سب کو ادراک ہونا چاہیے، بالخصوص پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو جو ان علاقوں میں کسی غیر یقینی صورت حال کے متحمل نہیں ہو سکتے- جنرل ایوب خان اکتوبر1961میں پہلی بار بطور صدر مظفرآبا د تشریف لائے۔ مقامی سیاست دانوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا”ممکن ہے کہ قوم کشمیریوں کو فراموش کربیٹھے لیکن پاکستان کی فوج اس وقت بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی“۔ان اداروں کو ان الفاظ کی لاج رکھنی چاہیےے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے