مشتری ہوشیار باش!

امریکی ترجیح کیا ہے؟ خطّے میں رسوخ اور بالاتری۔ افغانستان میں حقیقی امن کا آرزو مند وہ کیوں ہوگا؟دل نہیں مانتا۔Too good to believe۔احتیاط جنابِ وزیر اعظم ، جنرل صاحبان اور محترمہ وزارتِ خارجہ احتیاط، مشتری ہوشیار باش!

زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کو اسلحہ ترک کرنا ہو گا۔ کٹھ پتلی افغان حکومت سے براہِ راست بات کرنا ہو گی۔ کیا یہ ممکن ہے؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ پنڈ چھڑانا چاہتے ہیں۔ 45 بلین ڈالر سالانہ کی بچت۔ امریکی عوام پہ خرچ ہو تو ان کی مقبولیت بڑھے۔ مخالفین پر بالا دستی پائیں۔ آئندہ الیکشن ٹھاٹھ سے جیت لیں۔

کیا سی آئی اے اور پینٹاگان بھی یہی چاہتے ہیں؟ ان کا بجٹ بڑھا۔ اسلحہ سازوں کی بھی چاندی ہو گئی۔ افغانستان میں امریکی چھاؤنیاں فقط چھائونیاں نہیں، شہر ہیں۔ ان گنت رسد پہنچانے والوں کا رزق ان سے وابستہ ہے۔ اندازہ ہے کہ خود پاکستان کی 5.8 فیصد سالانہ شرح ترقی میں، 2 فیصد کا انحصار ان چھاؤنیوں کو ساز و سامان کی فروخت پہ تھا۔

شہنشاہ اکبر کے عہد میں برصغیر کا حجم، دنیا بھر کی معیشت کا 25 فیصد کے لگ بھگ تھا، جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد ریاست ہائے متحدہ کا۔ دولت کا بڑا حصہ چھوٹی سی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھا۔ گرما میں شہنشاہ سری نگر کا رخ کرتا تو دارالحکومت کی آبادی نصف رہ جاتی۔ سودا سلف بیچنے والے ہمراہ ہوتے۔ شالیمار باغ، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد‘ چوبرجی‘ مقبرہ جہانگیر‘ مقبرہ نور جہاں کے علاوہ بھی سینکڑوں عمارتیں اور باغات۔ ان صدیوں میں لاہور کے پھلنے پھولنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اوّل اکبر اعظم پندرہ برس تک یہاں مقیم رہا۔ پھر اس کے جانشین بھی پڑائو کیا کرتے۔ مغلوں کی دولت میں پچھلی چار صدیوں کے جمع کردہ زر و جواہر بھی شامل تھے۔

دارالحکومت سے خانِ خاناں ایک لشکر کے ہمراہ نکلا۔ پہلے پڑاؤ پر شام ڈھلی تو ویرانے میں ایک صدا ابھری، دل گداز اور دل سوز ۔
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ زدو بارگاہ ساخت

ثروت مند ، غریب الدّیار نہیں ہوتا۔ جہاں بھی جائے، خیمے گاڑتا اور بارگاہ استوار کر لیتا ہے۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے: آوازوں میں جادو بھی ہوتا ہے۔ لاہور کی کسی چاندنی رات میں حبیب جالب بغاوت کا نغمہ لحنِ دائودی میں گاتے تو ایسا لگتا کہ ستارے پلکیں جھپک رہے ہیں۔

وہ ایک فقیر تھا۔ ایک لاکھ روپے عطا ہوئے۔ دوسری اور تیسری منزل پہ وہی واقعہ پیش آیا۔ چوتھی پہ فقیر غائب۔کبھی ان کی داستاں لکھنے کی کوشش کروں گا۔ عبدالرحیم عظیم ترین اہلِ سخا میں سے ایک تھے۔ بولے: فقیر ہی کم کوش نکلا، ہم نے تو سولہ منزلوں کے سولہ لاکھ الگ کر دیئے تھے۔

جنگوں کی اپنی معیشت ہوتی ہے، فاتحین کے اپنے انداز ، قومی دولت پہ پلنے والوں کے الگ اطوار۔

افغان کارزار کا ایک پہلو یہ ہے۔بہت سے لوگوں کے مالی اور سیاسی اور مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ پھر روس ہے، جس کے باطن میں سوویت یونین کی حسرت مری نہیں۔ اقتصادی قّوت کے بل پر ایک کے بعد دوسری سر زمین فتح کرتا ہوا چین ہے۔ عظمت رفتہ کی آرزو، جس کے درون میں جاگ اٹھی ہے۔ اپنی تاریخ پر ایران کو ناز ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا بہت کچھ انحصار، ماورا النہر سے لے کر دریائے کابل تک پھیلی اقوام کے عمل اور ردّ عمل پر ہو گا۔

طالبان فقط ایک مذہبی اور سیاسی گروہ نہیں، پشتونوں کی قومی تحریک ہیں۔ اڑھائی سو برس کے بعد، کابل پہ ان کا غلبہ تمام ہو گیا۔ واپسی کے لیے کچھ بھی وہ کر گزریں گے۔ شمال کے ترکمانوں کی تعداد کم سہی مگر وہ اتنے ہی پر عزم ہیں۔ جیتا جاگتا ترکی ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ با میان اور متصل صوبوں پر مشتمل وسطی افغانستان میں چنگیز خان کا مسلمان ہو جانے والا قبیلہ آباد ہے … تاتاری، جن کے باب میں اقبالؒ نے کہا تھا؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

فروغ کا آرزو مند ایران ان کا مددگار ہے۔ بھارت سے زیادہ سرمایہ فارسی بولنے والی اقوام پہ لٹا چکا، کئی ارب ڈالر۔ پشتونوں کی طرح تاجک بھی قدیم خراسان کا حصہ ہیں، جہاں امیر المومنین ہارون الرشید کھیت رہے۔ جہاں سے مامون الرشید اٹھا اور بغداد پہ قابض ہوا۔ مامون کی والدہ اسی نواح کی تھیں۔ امین کو بڑا حصّہ اس لیے ملا تھا کہ ان کی ماں زبیدہ ،نجیب الطرفین ہاشمی خاندان سے تھیں۔ عرب قبیلے ان کے ہم نوا تھے۔

پھر حقائق بروئے کار آتے ہیں، پھر مشیّت فیصلہ کرتی ہے۔ امین ذکی تھا اور فیاض بھی مگر اوصاف ِحکمرانی سے بے بہرہ۔ مامون کی فوج کا سربراہ طاہر، ولولہ انگیز سپہ سالار تھا۔ مامون کی ذہانت، سونے پہ سہاگہ۔ اصل نام اس کا عبداللہ تھا۔ علم الاسماء کی رو سے عبداللہ میں ذہنی توانائی بہت ہوتی ہے۔

کابل پشتونوں کا شہر کبھی نہ تھا، اب تو بالکل ہی نہیں۔ پڑوس میں پنج شیر ہے۔ ہمارے پراچہ اور اعوان قبائل کا پرانا مسکن۔ پھر ازبک ہیں۔افغان محاورہ جن کے بارے میں یہ ہے ”غضبِ افغاں رحمِ ازبک‘‘۔ غضب ناک پٹھان رحم دل ازبک کے برابر ہوتا ہے۔

اللہ نے اپنی کائنات خیرہ کن تنّوع میں پیدا کی۔ ابدالا ٓبادکے لیے کشمکش کو قانون ٹھہرایا۔ جناب آدم علیہ السلام کو کرہ خاک پہ اترنے کا حکم ملا تو ارشاد ہوا: تھوڑی سی مہلت…اور تم میں سے بعض، بعض کے دشمن ہوں گے۔ گمراہی سے وہی بچیں گے، خلوص، جن کا اثاثہ ہوگا… سچّے اور صابر!

اقتدار اور دولت کی تمنا میں پاگل ہو جانے والے؟ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے والے؟ بظاہر پکّے مذہبی مگر قبائلی روایات اور نسلی تفاخر کے مارے۔ سخت جان، اجنبیوں کو شکوک بلکہ نفرت کی نگاہ سے دیکھنے والے۔ ہزاروں برس کا افلاس۔ اپنے خاندان اور قبیلے کے سوا، اس کے پاس کیا ہے؟ افغان کبھی بچ نکلے تو اپنی سادگی اور سخت جانی کے طفیل؛البتہ جنگ کے وہ خوگر ہیں۔غیر ملکی اقتدار تا دیر قائم نہیں رہتا۔

روسی فوج کابل میں اتری تو افغان امور کے عظیم ماہر لوئی دپری کو، امریکی پارلیمان نے مدعو کیا۔ اس نے کہا: سرخ افواج منہ کے بل گریں گی۔ بہت پہلے دانا مورخ ٹائن بی نے یہ کہا تھا: فوجوں کی قسمت کے ستارے خراسان اور میسو پوٹیمیا میں ڈوبتے ہیں، افغانستان اور عراق!

قدرت کی منشا اکثر اور ہوتی ہے، آدمی کی تمنا دوسری۔ایسے میں مہلت ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔فارسی کے شاعر نے کہا تھا:
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد مختصر گیرد

دنیا کا کام کسی نے کبھی مکمل نہ کیا۔ جس نے تھاما ، کچھ دیر کو تھاما۔ آئن سٹائن نے یہ کہا تھا: دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ ذاتِ قدیم کیا چاہتی ہے، باقی تفصیلات ہیں۔

جس کسی سے بات کی، اس نے کہا: طالبان غالب ہیں۔ جی نہیں، کوئی غلبہ دائمی نہیں ہوتا۔ روسی گئے، نیٹو افواج نکل گئیں، امریکیوں کو جانا ہے۔ طالبان طاقتور ہیں مگر ان کی عوامی حمایت کتنی ہے؟ الیکشن اب نہیں ہوں گے مگر جب بھی ہوں تو حکمت یار کے حامیوں کو بھی نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔ پارٹی ان کی حصّوں بخروںمیں بٹی ہے۔ جڑی تو طوفان اٹھا سکتی ہے۔

مجبوریاں الگ،حکمت یار نے راز کو پا لیا تھا۔ 1992ء کے معاہدہ اسلام آباد کے ہنگام اس عاجز سے کہا: قبائلی خطّہ ہے۔ اتفاق رائے کی حکومت کے سوا چارہ نہیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ سب ایک دوسرے کو معاف کر دیں۔ معاہدے پر دستخط خانہ کعبہ میں ہوئے مگر دلوں میں بت تھے۔
(باقی صفحہ 11 پر)
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں

بہت خون بہہ چکا۔ امن چاہئے۔ قیام امن کے لیے پاکستان کو بھر پور تعاون کرنا چاہئے۔ اپنے علاوہ ، خود افغانوں کے مفاد اور مستقبل کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ فقط امریکہ نہیں، ایران، ترکی ، روس اور چین سے مسلسل، متواتر مکالمہ۔ امریکیوں کے دام میں نہیں آنا چاہئے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

امریکی ترجیح کیا ہے؟ خطّے میں رسوخ اور بالاتری۔ افغانستان میں حقیقی امن کا آرزو مند وہ کیوں ہوگا؟دل نہیں مانتا۔Too good to believe۔احتیاط جنابِ وزیر اعظم ، جنرل صاحبان اور محترمہ وزارتِ خارجہ احتیاط، مشتری ہوشیار باش!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے