سیکورٹی سٹیٹ پاکستان سے فلاحی سٹیٹ پاکستان تک کے سفرکی مشکلات

بچپن سے ایک جملہ میری طرح ہر پاکستانی نے دوسرے پاکستانی سے تقریباً ضرور سنا ہو گا۔ہم غلام ابن غلام ابن غلام قوم ہیں۔

میں جب بھی یہ جملہ سنتا تو ذہن میں سوال ابھرتا کہ ہم تو آزاد ملک و قوم ہیں تو غلام کیسے؟

شعور اور تجربات کی عمر بڑھتی گئی تو اس سوال کا جواب خودبخود ملتا چلا گیا کہ واقعی ہم غلام ابن غلام ابن غلام قوم ہیں۔

آذاد میڈیا یا سوشل میڈیا کی سہولت کے طفیل آج کے دور میں کوئی خبر چھپانا انتہائی مشکل ہے۔چاہے کراچی میں سرفراز شاہ کا رینجرز کے ہاتھوں بیہمانہ قتل ہو، لاہور میں قانون کے محافظوں کے ہاتھوں ماڈل ٹاؤن کے چودہ قتل اور درجنوں ذخمی،نقیب اللہ محسود کا سندھ پولیس کے ایس پی راؤ انوار کی قاتل ٹیم کے ہاتھوں اندوہناک قتل ہو یا سانحہ ساہیوال میں پنجاب پولیس کے ھاتھوں 4 لوگوں کا قتل جس میں بے گناہ خاندان بھی شامل تھا۔

ایسے تمام ہی واقعات کے بعد عموماً یہ فقرہ زبان زدعام ہوتا ہے کہ ہم غلام ابن غلام ابن غلام قوم ہیں۔ڈرون حملے ہوں یا خودکش دھماکے ٹارگٹ کلنگ ہو یا دہشتگردی ملک کے وزیراعظم کا بھرے جلسے میں قتل ہو یا صدر پاکستان کے طیارے کا دھماکہ میں جاں بحق ہونا دو بار کی وزیراعظم کا خودکش دھماکے میں جان کی بازی دینا ہو یا ملک کی وزیر اعظم کے بھائی کو بیچ سڑک پر قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں قتل ہونا سول حکمران کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر 11 سال ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنا ہو یا تین تہائی والے نامزد وزیراعظم کو ملک بدر کر کے 9 سال اقتدار کو سنبھالے رکھنا آرمی چیف کے طیارے کو زبردستی ملک کے فضائی اڈوں پر اترنے کی اجازت نہ دینا ہو یا آئین کو معطل کر کے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لینا ہو غرض ان تمام ہی حادثات و واقعات سے اب پاکستانی قوم اس طرح سے آشنا ہو چکی ہے کہ صرف اتنا کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ ہم غلام ابن غلام ابن غلام قوم ہیں۔

تازہ ترین ساہیوال کے اندوہناک واقعے نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ایک بار پھر ہر طرح کے میڈیا اور عوام نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

مجھے کئی سالوں سے پاکستانی اور غیر پاکستانی سیکورٹی اداروں کو مختلف پروجیکٹس اور جابز کی وجہ سے انتہائی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔

میں اس تحریر میں اپنے ان مشاہدات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنکی وجہ سے ہمارے سیکورٹی اداروں نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کے بجائے سیکورٹی ریاست بنا رکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ پہلو ہماری عوام سے پوشیدہ ہے جسے آج کل کا میڈیا بھی اجاگر کرنے میں ناکام ہے۔

چند روز قبل مجھے ایک انتہائی حساس ادارے کے ہیڈکوارٹر میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر موجود سہولیات کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے مستقبل کے قانون کے محافظ کن مسائل کا شکار ہیں لیکن ان تمام مسائل کو کوئی حل کرنے والا موجود نہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے انکی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے اور اسکی کمی وہ پورے کیریئر کے دوران محسوس کرتے ہوئے اپنے پیشہ وارانہ امور میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔

اس ہیڈ کوارٹر میں تقریباً نو سو کے قریب پورے پاکستان سے نئے جوان سلیکٹ ہو کر آئے تھے اور سب ہی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وطن کی خدمت کا جذبہ لئے ہوئے وہاں کئی طرح کے ٹیسٹ پاس کرنے اور سیکورٹی کلیئرنس کے بعد حاضر ہوئے تھے ۔
انکی رہائشگاہ تقریباً نصف صدی پرانی یا اس سے بھی پہلے کی عمارات پر مشتمل تھی جن میں سے چند عمارتوں کے کمروں میں چارپائی تک کی سہولت میسر نہ تھی اور ان جوانوں کو جنوری کی سخت ترین سردی میں فرشی بستر پر سونا تھا۔ ان جوانوں کو جو پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے آئے تھے کوئی بستر سرکار کی طرف سے مہیا نہیں کیا گیا تھا۔وہ یا تو گھروں سے پورا بستر یا پھر وہاں موجود واحد کینٹین سے مارکیٹ سے دگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور تھے ۔

سخت سردی اور سفر کی وجہ سے وہاں موجود واش رومز جانا نصیب ہوا تو وہاں پر موجود غلاظت اور طعفن کی وجہ سے متلی ہونے لگی۔ وقت گزاری کے لئے وہاں موجود واحد کینٹین پر جانے کا اتفاق ہوا جو کہ عموما وہاں آنے والے مہمانوں کے لئے مخصوص ہے تو وہاں کھانے پینے کے انتظامات کو دیکھ کر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ پاکستان کے انتہائی حساس ادارے کی کینٹین،واش رومز،سونے کے کمروں،وہاں موجود چند الماریوں اور انتہائی مہنگی واحد بنیادی ضروریات کی دوکان کی یہ حالت ہو گی۔

ہیڈ کوارٹر میں آنے والے نئے ریکروٹس سے گفتگو کا موقع ملا تو انکی بے چینی کو صاف محسوس کیا لیکن انکے گھریلو حالات اور ملک کے مشکل معاشی حالات کے پیش نظر وہ انتہائی نامساعد حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا مظاہرہ کر رہے تھے تبھی دل میں یہ ہوک اٹھی جو آج ان تکالیف کو برداشت کر رہے ہیں وہ کل اوروں کی تکلیف کا باعث بنیں گئے۔

آج دور جدید میں جہاں ترقی پذیر ممالک کے سیکورٹی اداروں میں تربیت اور مہارت پر توجہ دی جاتی ہے وہاں ان کی بنیادی سہولیات زندگی کو بھی دور جدید کے مطابق مہیا کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

پاکستان کے تمام ہی سیکورٹی اداروں بشمول وفاقی پولیس،چاروں صوبائی پولیس کے اداروں،فوج،کانسٹبلریزی،کسٹمز،اے ایس ایف،اے این ایف یا قانون نافذ کرنے والا کوئی بھی اور ادارہ ہو وہاں افسران کو چھوڑ کر نیچے گریڈ کے ملازمین کو دوران ٹریننگ بنیادی زندگی کی سہولیات کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔

یہ ایک ایسا جرم ہے جو حکومتیں یا ادروں کے سربراہان ہمہ وقت کر رہے ہیں اور اسکی سزا پاکستانی عوام بھگتتی ہے۔

اسکے علاؤہ ہمارے تمام ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قانون نافذ کرنے کی حکمتِ عملی،ٹریننگ اور مہارت ہمہ وقت سکھائی جاتی ہے لیکن ان قانون نافذ کرنے والے ملازمین کے کردار سازی کے حوالے سے وہ تربیت فراہم نہیں کی جاتی جو اسلامی فلاحی ریاست کا خاصہ ہونی چاہیے۔

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے دورانِ جنگ بھی اسلامی فوجوں کے لئے باقاعدہ اصول و ضوابط کا تعین کیا۔ چنانچہ تعلیماتِ اسلام کے مطابق دوران جنگ بھی عورتوں کا قتل جائز نہیں ہے۔ اس کے ثبوت میں درج ذیل احادیث ملاحظہ ہوں :

1. عَنِ ابْنِِِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : وُجِدَتِ امْرَأَة مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَنَهَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قتل النساء في الحرب، 3 : 1098، رقم : 2852
2. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب، 3 : 1364، رقم : 1744
3. ترمذي، السنن، کتاب السير، باب ما جاء في النهي عن قتل النساء والصبيان، 4 : 136، رقم : 1569
4. ابن ماجه، السنن، کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2 : 947، رقم : 2841
5. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 22، رقم : 4739

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (سختی سے) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی۔‘‘

ابن بطال نے ’’شرح صحیح البخاری (5 : 186)‘‘ میں اور امام نووی نے ’’شرح صحیح مسلم (12 : 37)‘‘ میں اسی موقف کی تائید کی ہے کہ دوران جنگ عورتوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

2۔ اسی طرح دورانِ جنگ خواتین کے قتل کی ممانعت ایک اور حدیث سے واضح ہوتی ہے جس کو امام عبد الرزاق نے اپنی مصنّف، امام شافعی نے اپنی مسند، امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں درج کیا ہے۔

عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِي حَقِيْقٍ، نَهَی حِيْنَئِذٍ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.

1. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 202، رقم : 9385
2. شافعي، المسند : 238
3. طحاوي، شرح معاني الآثار، 3 : 221
4. بيهقي، السنن الکبریٰ، 9 : 77، رقم : 17865

’’حضرت ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ابن ابی حقیق کی طرف لشکر روانہ کیا تو لشکر اسلام کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے صریحاً منع کیا۔‘‘

3۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی روایت کرتے ہیں :

نهی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم عن قتل النساء والولدان.

طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 113، رقم : 7011

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔‘‘

2۔ غیر مسلموں کے بچوں کے قتل کی ممانعت

دورانِ جنگ غیر مسلم خواتین کے علاوہ غیر مسلموں کے بچوں کے قتل کی ممانعت بھی اسلام کے سنہری اور انسان دوست ضابطوں میں سے ایک ہے۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصولِ جنگ بھی دیکھیں اور جہاد کے نام پر کلمہ گو دہشت گردوں کی چیرہ دستیاں بھی۔ کاش ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان فرامین کا تھوڑا سا بھی حیاء ہوتا!

1۔ امام مسلم اپنی صحیح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تحریر فرمایا :

وَإِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لَمْ يَکُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ.

مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب النساء الغازيات يرضخ لهن ولا يسهم والنهی عن قتل صبيان أهل الحرب، 3 : 1444، رقم : 1812

’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (یعنی عہد نبوی کی مسلم فوج) دشمنوں کے بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، سو تم بھی بچوں کو قتل نہ کرنا۔‘‘

دوران جنگ غیر مسلم عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو قتل کرنے کی ممانعت سے متعلق مندرجہ احکامات کی روشنی میں جلیل القدر فقیہ احناف امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المبسوط‘‘ میں اپنا نقطہ نظر یوں بیان کرتے ہیں :

قال صلی الله عليه وآله وسلم : ولا تقتلوا وليدا والوليد المولود فی اللغة وکل آدمی مولود، ولکن هذا اللفظ إنما يستعمل فی الصغار عادة. ففيه دليل علی أنه لا يحل قتل الصغار منهم، إذا کانوا لا يقاتلون. وقد جاء فی الحديث أن النبی صلی الله عليه وآله وسلم نهی عن قتل النساء والولدان. وقال : اقتلوا شيوخ المشرکين، واستحيوا شروخهم. والمراد بالشيوخ البالغين وبالشروخ الأتباع من الصغار والنساء والإستحياء الاسترقاق. قال اﷲ : ﴿وَاسْتَحْيُوْا نِسَآءَ هُمْ﴾.(1) وفي وصية أبی بکر رضی الله عنه ليزيد بن أبی سفيان : لا تقتل شيخا ضرعا ولا صبيا ضعيفا، يعنی شيخا فانيا و صغيرًا لا يقاتل.(2)

(1) مؤمن، 40 : 25
(2) سرخسی، کتاب المبسوط، 10 : 5، 6

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بچوں کو قتل نہ کرو، ولید لغت میں مولود کے معنی میں ہے۔ یوں تو ہر انسان مولود ہے مگر عادتاً اس لفظ کا استعمال چھوٹے بچوں کے لئے ہوتا ہے۔ یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں کا قتل جائز نہیں (خاص طور پر) جبکہ وہ قتال میں شریک ہی نہ ہوں۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا : (حربی) مشرکین میں سے جو بالغ ہیں (صرف حالتِ جنگ میں) اُنہیں قتل کرو لیکن عورتوں اور بچوں کو (پھر بھی) زندہ رہنے دو۔ شیوخ سے مراد (جنگ میں شریک) بالغ افراد ہیں، شروخ سے مراد بچے اور عورتیں ہیں، استحیاء کا مطلب ہے : نرمی کا برتاؤ کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاسْتَحْيُوْا نِسَآءَ هُمْ﴾. اس آیت میں بھی استحیاء نرمی کے برتاؤ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کسی شیخ فانی (عمر رسیدہ یا قریب المرگ بوڑھے) اور ناتواں بچے کو ہرگز قتل نہ کرے

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین کو اسلام کی روشنی میں بچوں،بھوڑوں اور خواتین کے بارے بتائے گئے احکامات کو صحیح طرح سے سکھایا جاتا ہے یا نہیں۔اور اگر سکھایا جاتا ہے تو اس کی خلاف ورزی پر انکے خلاف کیا ایکشن لیا جاتا ہے۔؟

ہمارے موجودہ وزیر داخلہ جو کہ اسلامی امور پر کافی دسترس رکھتے ہیں اور تبدیلی کے دعوے کے ساتھ اس حکومت کا حصہ ہیں ان سے میری درخواست ہے کہ تمام ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بنیادی تربیت کے علاؤہ ملازمین کو زندگی کی بنیادی سہولیات جدید اور موثر انداز میں مہیا کر کے ان کا مورال بلند کریں اور اخلاقی تربیت کا جامع پروگرام ترتیب دیں جو کہ پیشہ وارانہ تربیت کے بعد دو سے چار ہفتوں پر مشتمل عین اسلامی فلاحی ریاست کے اصولوں کے تحت ہو۔

اسکے علاؤہ وزیر دفاع،آرمی چیف،اور باقی تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان بھی اپنے جوانوں کی دوران ڈیوٹی بنیادی ضروریات زندگی کو جدید سہولیات کے ساتھ آراستہ کرنے کے لئے عملی قدم اٹھائیں۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے