ستر سالہ اتحاد خطرے میں

صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ شمالی کوریا کے صدرکم جونگ کے ساتھ امن قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے مراسم جنوبی کوریا کے لیے پریشان کن ہیں۔ جنوبی کوریا اور امریکہ کے کئی دہائیوں سے دوستانہ تعلقات میں گزشتہ مہینوں سے کشیدگی دیکھنے کو آئی۔ ٹرمپ انتظامیہ کا اصرار ہے کہ جنوبی کوریا‘ امریکی فوجیوں کے تحفظ کے لئے 50 فیصد فنڈمیں اضافہ کرے‘ جووہ سکیورٹی کے لئے فراہم کرتا ہے ۔ان میں جوہری قابل بمبارکے ساتھ گودام بھی شامل ہیں ‘جو ہزاروں میل دور ہیں۔

تنازعات کا سبب ہتھیاروں کی قیمتوں کا اشتراک اور گزشتہ ہونے والے معاہدوں کا وقت ہے ‘جو گزشتہ سال دسمبر میں ختم ہو چکا ہے؛ اگر جلد ان معاہدوں پر تجدید کا عمل شروع نہ ہوا تو جنوبی کوریائی شہریوں کے روابط واشنگٹن سے ختم ہو جائیں گے۔مذاکرات سے واقف جنوبی کوریائی اہلکار کے مطابق‘ 15 اپریل کے آخری دنوں میں ایک معاہدے ہونے کا امکان ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جے کے نمائندوں کی جانب سے براہ راست مذاکرات کرنے کی بجائے‘ لوگوں کی اندرون خانہ مدد کرنا شروع کردی ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ‘ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ جو سرکاری حکام بات چیت کے لیے سنجیدہ نہیں تھے ‘ انہیں مذاکرات میں شامل نہیں کیا گیا۔

ریاستی محکمہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جنوبی کوریا کو اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ ‘مگر متوازن قیمت ادا کرنے پڑے گی ‘ تاکہ وہ اپنے شراکت داروں کا اعتماد بحال کر سکے۔ جنوبی کوریائی حکام نے کہا ” دوسرے اتحادی بھی اس پر نظر ثانی کریں‘‘۔70 سالہ اتحاد اور شراکت داری کے دور میں مسلسل تنقید کا سامنا بھی رہا‘ جس کی وجہ متعدد مسائل ہیں۔ اگلے مہینے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کے ساتھ دوسرے سربراہی اجلاس کے لئے تیاری جاری ہے ۔حالیہ ہفتوں میں شمالی کوریا کے صدرکم جونگ نے مطالبات سامنے رکھے کہ ان کے مخالف اتحادیوں کی فوجی تعداد کاری کم کی جائے‘ بشمول امریکہ سے ”اسٹریٹیجک اثاثوں‘‘ کو ہٹایا جائے اور مشترکہ مشقوں کا اختتام عمل میں لایا جائے۔

تشو یش ناک بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک ممکنہ طوفان ہے‘جہاں فوجیوں کو واپس لینے کے لئے ٹرمپ کی خواہش ہے؛ اگر وہ یقین میں بدل گئی تو وہ شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کے لئے تجارت کر سکے گا۔بہت سی باتیں اگلے مشترکہ اجلاس میں کھل کر سامنے آ جائیں گی۔ نئی امریکی سیکورٹی کے سینئر آفسر نے کہا ہے کہ ”یہ جنوبی کوریا کے لئے فوری طور پر بحران ہو گا‘ جس سے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کا خطرہ بھی اسے ہوگاـ‘‘۔قیمتوں کے اشتراک کا تنازعہ‘ سیکورٹی مسائل کاحل غیر قانونی طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔جب سابق سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے 20 دسمبر کو استعفیٰ دیا‘یہ معاہدہ پانچ سال تک رہتا اور دونوں ممالک کی جانب سے قانون سازی کی منظوری دی جاتی مگر11 دن بعد ہی معاہدے کی مدت ختم ہوگئی جبکہ امریکہ فوج تعینات کرنے کے لئے جنوبی کوریا کی شراکت دار منصوبوں سے مشروط نہیں۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ ”اس کے مقامی اہلکاروں کے اخراجات میں سے تقریبا نصف ہی جنوبی کوریا ادا کرتا ہے ‘‘۔جنوبی کوریا نے گزشتہ سال 9.6 ارب بلین ڈالر (849 ملین ڈالر) کی رقم ادا کی۔ امریکی فوجی سہولیات کی تعمیر اور جنوبی کوریائی شہریوں کو فوجی فوائد پر کام کرنے کے لیے علیحدہ سے مالی امداد دی گئی۔معاہدہ ختم ہونے کے بعد‘ امریکہ نے اچانک جنوبی کوریا سے 1.4 ٹریلین (1.2 ارب ڈالر) دینے کی درخواست کر دی۔ قومی اسمبلی میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر پارلیمان ”ہانگ ینگ پیو‘‘ نے حکمران پارٹی کے ممبران کو بتایا کہ ”یہ ناگزیر ہے کہ ایک ملک کا ایک طرفہ مطالبہ مان لیا جائے۔ اس کے اتحادیوں کا کمزور اعتماد ان کے کئی مفادات کے حصول کو بھی کمزور کرتا ہے‘‘۔حقیقی بحران 15 اپریل تک تو سامنے نہیں آئے گا مگر جنوبی کوریا جلد رقم ادا کرنے کے لیے کوششوں میں ہے۔

جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کاگ کیونے امریکی نشریاتی ادارے کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”دونوں ممالک جلد ایک نکتے پر اکٹھے ہو جائیں گے‘ہم ابھی تک وہاں نہیں ہیں ‘لیکن ہم بہت جلد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر دیں گے‘‘۔جنوبی کوریا کے ترجمان نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا کی سلامتی کے لئے امریکہ کی کوششیں قابل تحسین ہیں اور ہم ان تعلقات کو ”لوہے سے مضبوط‘‘ قرار دیتے ہیں ۔اتحاد ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کو برقرار رکھتا ہے۔شمالی کوریاکے صدر کم جونگ کے خلاف اہم دفاع بھی ہے‘جو ابھی تک ایٹمی ہتھیاروں کو مکمل طور پر چھوڑنے کے لئے رضا مند نہیں ۔ کبھی امریکہ کو جاپان کی طرز پر نیوکلیائی حملہ کرکے اندھیرے میں دھکیل دینے کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی مضبوط سفارتی تعلقات کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

جزیرے پر فوجی موجودگی چین کی بڑھتی ہوئی طاقت پر قابل قدرنظر رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ نے جون میں شمالی کوریا کے صدرکم جونگ سے ملاقات کے بعد فوج کی تعیناتی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ”انہیں گھر واپس لانا چاہتے ہیں لیکن یہ اب مساوات کا حصہ نہیں ہے‘‘۔ لیکن آنے والاوقت ہی طے کرے گا کہ اس خطے میں بدلتے رنگ کیا نئی راہیں ڈھونڈ پاتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے