میدانِ ثقافت میں دستیابی اور اعتماد

دُنیا جانتی ہے کہ ماڈرن ترکی کے بانی مصطفی کمال اَتاتُرک شام ڈھلے سامانِ راحت کا استعمال کرتے تھے۔ ایامِ جوانی سے ہی اُن کا یہ معمول تھا۔ صدارتی محل میں بیٹھتے تو ہر شام محفل سجتی۔ اُن کے ساتھ اُن کے مخصوص دوستوں کا ٹولہ ہوا کرتا تھا جنہیں ‘The usual gentlemen‘ کی اصطلاح سے جانا جاتا تھا۔ محفل کا رنگ بے تکلفی کا ہوتا اور اَتا تُرک پروٹوکول کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے۔

اَتا تُرک نوش البتہ صرف ترکی میں کشید کی ہوئی راکی (raki) کرتے تھے‘ جو سونف سے بنتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دُنیا بھر کے مشروبات اُن کی پہنچ میں تھے لیکن جوانی سے ہی راکی کا شوق رہا، کسی اور سکاچ واچ کا نہیں۔ دورانِ جام نوشی اُس محفل کی روایت تھی کہ چنے کے دانے ہی کھائے جاتے۔ اپنا اپنا ٹیسٹ (taste) ہوتا ہے اور بانیٔ ماڈرن ترکی کا یہی ٹیسٹ تھا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ سامانِ راحت کے استعمال میں بھی ایک خاص قسم کی حب الوطنی جھلکتی تھی۔ شام کا ایک پہر گزرتا تو کھانا لگایا جاتا‘ اور عموماً اَتا تُرک کہا کرتے کہ اَبھی نہیں کچھ دیر بعد کھائیں گے۔ یوں لگایا ہوا کھانا دوبارہ کچن میں جاتا‘ اور ایسے ہی ایک آدھ بار پھر سے لایا جاتا اور واپس کچن میں دوبارہ بھیج دیا جاتا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ فجر کے وقت ہی بالآخر کھانا کھایا جاتا۔

اُس میز کے گرد ظاہر ہے گفتگو دوستوں والی ہوتی۔ یہ قصّہ اُن کی ایک سوانح حیات میں درج ہے کہ وہاں موجود ایک صاحب نے ایک بار سوال کیا، ”پاشا، ذاتِ عورت میں کون سی خصوصیت آپ سب سے اہم سمجھتے ہیں؟‘‘ ذرا توقف کے بعد ہلکی سی مسکراہٹ پاشا کے لبوں پہ آئی اور اُنہوں نے کہا، ”availability‘‘۔ مصنف لکھتا نہیں ہے لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محفل کَشتِ زعفران ہو گئی ہو گی۔

پاشا نے بات تو ٹھیک کہی۔ اُس پیکرِ جمال کا فائدہ کیا جو بوقتِ تمنا دستیاب نہ ہو؟ قلوپطرہ اور ہیلن آف ٹرائے کا حُسن اپنی جگہ۔ اُن کے حسین ہونے کے بارے میں آپ کتابیں لکھتے رہیں‘ لیکن پھر وہی پاشا کی بات کہ وہ حُسن آپ کے کس کام آیا؟

یہ تمہید اِس لئے باندھی کہ آپ لاکھ ویزے کی پابندیوں میں نرمی کریں، موجودہ حالتِ پاکستان میں کون کافر یہاں آئے گا؟ جو روایات زمانۂ قدیم سے یہاں چلی آرہی تھیں‘ اُن کو ہم نے برباد کر دیا۔ جو مخصوص بازار اپنی شہرت رکھتے تھے وہ بند ہو گئے۔ منافقت سکہ رائج الوقت بن گئی۔ میدانِ ثقافت سے منسلک لوگ لاہور، حیدر آباد اور کراچی کی بالکونیاں چھوڑ کر دوبئی ہجرت کرگئے۔ دوبئی کی رونقیں بڑھ گئیں، یہاں ویرانیاں چھا گئیں۔ اِس صورتحال میں کسی کو کراچی، لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹوں پہ آتے ہی ویزا مل جائے تو وہ اُس ویزے سے کرے گا کیا؟ فرض کریں بھٹکتا ہوا سیاح اسلام آباد آ جاتاہے اوروہاں کے دو فائیو سٹار ہوٹلوں میں سے ایک میں قیام پذیر ہوتاہے، چیک اِن کے بعد وہ اپنے کمرے میں جاتا ہے‘ پھر جب شام آن ڈھلے، اور یہ وہ خطرناک وقت ہوتا ہے جب دِل میں طرح طرح کی اُمنگیں اُٹھتی ہیں، تو وہ کمبخت کہاں جائے اور کرے کیا؟

سوائے کڑاہی گوشت اور مختلف ریستورانوں کے اور ہم نے مملکتِ خداداد میں چھوڑا کیا ہے؟ اسلام آباد یا لاہور کے بڑے ہوٹلوں کے نام کیا لینے‘ لیکن ہر ایک کی حالت ایک سی ہے۔ غالب کا وہ کیا شعر ہے، ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، دَشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا‘‘؟۔ ہم نے تو کیفیت اُلٹی کر دی ہے۔ گھر کو دیکھ کے کوئی بیکار دَشت ہی یاد آتا ہے۔ بیکار کا لفظ اِس لئے استعمال کیا کہ دَشت میں بھی حُسن وخوبصورتی ہوتی ہے۔ جو ہم نے اپنے شہروں اور بڑے ہوٹلوں کا حال بنا دیا ہے خوبصورتی یا راحت نام کی چیز وہاں دُور سے نہیں گزرتی۔ لیکن ہمارے حوصلوں کو داد دینی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کرکے بھی دُنیا میں اِتنے بے وقوف ہوں گے جو قطاریں بنا کے اور دروازے توڑ کے مملکتِ خداداد میں آنے کی تمنّا رکھتے ہوں گے۔ وہ یہاں کیا مولانا طارق جمیل کی باتیں سُننے آئیں گے؟

جس لاہور کے ہوٹل میں میرا قیام ہوتا ہے وہاںغیرملکیوں کیلئے اُوپر کی منزل میں ایک چھوٹا ساکمرہ مختص کیاگیاہے جسے وہ بار یا میخانہ کہتے ہیں۔ میخانہ کا مطلب ہے کہ دُور سے ہنگامے اور مَستی کی آوازیں آئیں۔ اُس کمرے میں کبھی بھول کے قدم رکھوں تو بجھا ہوا دل اور گر جاتاہے۔ کونے میں مری بروری برانڈ کی بوتلیں سجائی ہوتی ہیں‘ اور اُن کی قیمتیں وہ کہ نہ پوچھیے توزیادہ بہتر۔ پھر آپ توقع کرتے ہیں کہ باہر کے بے وقوف ٹوٹ ٹوٹ کے یہاں آئیں گے۔

بنکاک یا دوسرے ایسے شہر سیاحت کا مرکز کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اِس لئے کہ ضرورت کے مطابق ہرچیز دستیاب ہے۔ بات وہی اَتاتُرک کی، یعنی availability۔ ٹیکسی بلانے کی زِحمت کرکے آپ مخصوص ٹھکانوں پہ جا سکتے ہیں اورکسی ایس ایچ او تھانہ قلعہ گجر سنگھ یا سول لائنز کا ڈر نہیں ہوتا کہ راستے میں ناکہ لگائے بیٹھا ہوگا۔ ٹیکسی کی زحمت نہیں کرنا چاہتے تو ٹیلی فون نمبردستیاب ہوتے ہیں۔ ٹیلی فون کریں تو جس پہاڑ پہ آپ خود نہیں جانا چاہتے وہ چل کے آپ کے کمرے میں آجاتاہے۔

یہ صرف دستورِ بنکاک نہیں۔ یہ دستورِ زمانہ و دُنیاہے۔ ہم بھی کوئی معصوم نہیں جو اِن روایات سے بے خبر ہیں۔ کونسی روایتِ جمال یہاں نہیں پنپتی تھی؟جو بازار لاہور میں سردار ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے اُس کی مشہوری پورے ہندوستان میں تھی۔ لکھنؤ میں شاید کوئی ایسا بازار ہو لیکن موجودہ دہلی میں ہرگز نہیں۔ دہلی میں بازار کا نام ‘جی بی روڈ‘ ہے اوروہاں ماحول اِتنا تنگ اورخراب کہ ایک بار جا کے دِ ل گردے والا آدمی ہی وہاں دوبار قدم رَکھ سکتاہے۔

ہمارے ملتان کے بازار کی اپنی مشہوری تھی۔ کوٹھے کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ہاں کے شیخ وزاہد‘ جن کی کمی نہیں سادہ باتوں کا بھی غلط مفہوم نکال لیتے ہیں۔ تو کوٹھوں کی بجائے بالکونیاں ہی سمجھ لیں۔ کیا کیا بالکونیاں حیدر آباد کے بازار اورکراچی کے نیپئر روڈ پہ نہ تھیں؟سندھ کے وڈیروںکا پسندیدہ مَسکن بازارِ حیدر آباد تھا۔

1970ء کے الیکشن میں بطورِ فوجی کپتان میری ڈیوٹی تھانو بُلھَا خان میں لگی جو ضلع دادو کا حصہ ہے۔ ایک شام سوٹ اورٹائی پہنے میں اورچند آفیسر حیدر آباد کے بازار کی سیر کرنے نکلے۔ کیا سماں تھا۔ اَب بھی دِل پہ نقوش اُس کے موجود ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ اُس زمانے میں جیبیں اِتنی بھری نہ ہوتیں‘ لہٰذا ایک آدھ گانا سُنا، کچھ نوٹ ہوا میں لہرائے اور پھر تھانو بُلھَا خان واپس آگئے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اُس قسم کا پاکستان صرف خوابوں میں نہیں حقیقت کے رُوپ میں موجود تھا۔ یہ کیسے ویران ہوا وہ الگ داستان ہے۔ لیکن جو حال ہوا ہم نے خود اَپنے ہاتھوں سے کیا۔ جنرل ضیاء الحق کا دورِ جہالیہ آیا اوروہ پُرانا پاکستان ماضی کے دریچوں میں گم ہوگیا۔ اَثرات اِس تبدیلی کے ایسے تھے کہ آج تک موجود ہیں۔

اعتماد کی بات بھی سُن لیجیے۔ نوٹ آپ کی جیب میں ہوں اورآپ کوئی چیز منگوائیں اوریقین نہ ہو کہ آنے والی چیز ایک نمبر ہے یا دونمبر تو ایسی کیفیت کے بارے میں کیا کہاجائے؟ پچھلے ہفتے جہاں لاہورمیں قیام کرتے ہیں‘ بھاری نوٹ نکالے اورشام کے سامان کی التجاکی۔ سامان آیا اور نکلا دونمبر۔ اورہم اُمید کررہے ہیں کہ ویزے میں آسانیاں پیدا کردیں تو دُنیا بھر کے میخانوں کو چھوڑ کے ایک یلغار بدبختوں کی پاکستان کے ایئرپورٹوں پہ حملہ آور ہوجائے گی۔ آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو حالات میں کریں۔ ہندوستان سالانہ ستائیس بلین ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے جو ہماری تمام برآمدات سے زیادہ ہے۔ دیگر ممالک کی سیاست سے کمائی اِس سے بھی زیادہ ہوشربا ہے۔

کیاترکی مسلمان ملک نہیں ہے؟ اُن کے صدر کٹر اسلامی ذہن کے مالک ہیں۔ لیکن وہاں یہ قباحتیں نہیں جو ہم نے اپنے لئے کھڑی کردی ہیں۔ رمضان کا مہینہ بھی ہو تو کسی حوالے سے آپ کو نہ استنبول نہ انقرہ میں کوئی دشواری پیش آئے گی۔ ریستوران کھلے رہتے ہیں اورمیخانے بھی۔ جنہوں نے روزہ رکھنا ہو رکھتے ہیں۔ جو کچھ اور کرنا چاہیں اُن کے لئے بھی آزادی ہے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ دُنیا بھرکے سیاح ترکی آنا پسند کرتے ہیں۔ یہی حال دوبئی کا ہے۔ پر ہم عقل کے مارے ہمیں کوئی کیا سمجھائے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے