2007 کی تلاطم خیزیاں

1999کے بعد جس سال نے پاکستان کی تاریخ پر سب سے گہرے اثرات مرتب کیے وہ 2007 ہی ہے۔ پیچھے مڑ کردیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اس سال کتنے اہم واقعات ہوئے۔ تمام کے تمام واقعات کسی نہ کسی طرح آج کے سیاسی ماحول کی بنیاد ہیں۔ بعض کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں تو کچھ واقعات ایسے بھی تھے جن کے بعض پہلو آج تک سربستہ راز ہی ہیں۔ کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ سال 2007پوری ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ مگر پھر یہ سوچ کر آگے بڑھ جاتاہوں کہ اس کے لیے ریسرچرز کی ٹیم بنانا، انٹرویوز کرنا، لکھنا اور پھر کام مکمل ہوجائے تو اسے چھپوانا اتنا لمبا کام کرے گا کون ؟

مگر پھر بھی یہ سوچ کر آج کا کالم تحریر کررہا ہوں کہ شاید کسی یونیورسٹی کا طالبعلم یا ریسرچر ہی سال 2007پر تحقیق کرلے۔ پاکستان میں اول تو فلمیں کم بنتی ہیں اگر بنیں بھی تو جمہوریت اور سیاست ان کا موضوع نہیں ہوتا۔ تاریخ پر فلم تو شاید ہی کبھی بنی ہو۔ شاید کوئی 2007کے واقعات کو ڈاکومنٹری کی شکل میں ہی لوگوں کے لیے چھوڑ دے ۔ تاہم میرے لیے کم ازکم یہ سوچ اطمینان بخش ہے کہ سال 2007کے تمام اہم واقعات میں میرے دوست عمرچیمہ، سلمان مسعود اور میں کسی نہ کسی طرح کچھ اہم پہلوئوں کی رپورٹنگ کرتے رہے۔

ایسا نہیں کہ سب کچھ ہم نے ہی کیا سچ یہ ہے کہ اس سال کے اہم واقعات کی رپورٹنگ میں محترم انصارعباسی اسلام آباد کے تمام صحافیوں سے آگے تھے۔ یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ آپ کی توجہ ماضی کی طرف لیجانے کے لیے 2007 کے کچھ اہم واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ اس سال کا آغاز تو خاموشی سے ہوا مگر مارچ کے مہینے نے سیاسی منظر نامے پر ایک ایساتلاطم چھوڑا کہ تاریخ بھلائے نہیں بھولتی۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ۹ مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہائوس راولپنڈی بلایا اور سبکدوش کردیا۔ جواب میںجنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے خلاف ایسی تحریک شروع ہوئی کہ جسکی مثال موجود نہیں تھی۔ تحریک میں میڈیا اور وکلا آگے آگے تھے۔

3جولائی کو اسلام آباد کی لال مسجد اور حکومت کے درمیان تنازع طول پکڑا اور پھر10 جولائی کو لال مسجد میں آپریشن کردیا گیا۔ ابتدا میں ہم میڈیا والے پرویزمشرف کی حکومت کو آپریشن نہ کرنے کے طعنے دیتے رہے اور پھر جب لاشیں گریں تو ہم آنسو بہاتے لال مسجد کے غم میں شریک ہوگئے۔ اس سب کے سوات اور قبائلی علاقہ جات میں موجود عسکریت پسندوں پر بڑے اثرات مرتب ہوئے۔ ملک میں خود کش حملوں کی ایک ایسی لہر آئی کہ خدا کی پناہ۔اگست میں سپریم کورٹ نے شریف برادران کے بارے ایک رٹ پٹیشن کا فیصلہ دیا اور کہا کہ شریف برادران پاکستانی شہری ہیں اور وہ وطن واپس آنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جواب میں نوازشریف 10ستمبر کو برطانیہ سے وطن واپس آئے۔ اسلام آباد اترے تو انہیں ایک طیارے میں سیٹ کے ساتھ باندھ کر سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ یہ سال 2007ہی تھا کہ جس میں جنرل مشرف نے جنرل کیانی کے ذریعے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقاتیں کیں۔

بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ بے نظیر 18 اکتوبر 2007کو کراچی آئیں تو ان کے استقبالی جلسے پر خودکش دھماکے ہوگئے۔ آج تک ان دھماکوں کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ اکتوبر میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد نومبر بڑا اہم تھا۔ اول تو یہ کہ 20 نومبر کو نوازشریف ایک بارپھر سعودی عرب سے واپس پاکستان آئے۔ اس بار وہ اسلام آباد کی بجائے لاہور اترے۔ یہ سب کچھ پس پردہ مذاکرات کا نتیجہ تھا جسکی تفصیلات آج تک قوم کے سامنے نہیں آسکیں۔ 2007کا نومبر اس لیے بھی سب سے اہم تھا کہ فوج میں کمان کی تبدیلی کے لیے 28نومبر کی تاریخ مقررکردی گئی۔ فیصلہ مشرف کا تھا۔

پرویز مشرف نے اپنی فوجی کمان 29نومبر کو راولپنڈی میں ایک تقریب کے دوران بڑے جذباتی انداز میں جنرل کیانی کے حوالے کی۔ وہ دن اور آج کا جب بھی تین سال بعد نومبر آتا ہے تو فوجی کمان میں توسیع یا نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے اقتدار کے ایوان ہل رہے ہوتے ہیں۔ سال 2007 کا نومبر تین حوالوں سے سب سے اہم تھا۔ اول یہ کہ پرویزمشرف نے3 نومبر کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کی۔ یعنی 1999کے بعد ایک بار پھر آئین کی پامالی کی گئی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بحال کیے گئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کو اسی ایمرجنسی کے تحت دوبارہ فارغ کردیا گیا اور عوامی رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹی وی چینلز بند کردئیے گئے۔

دوسری اہم بات یہ تھی کہ بیت اللہ محسود نے تیرہ عسکریت پسند گروپوں کی مدد سے قبائلی علاقہ جات میں تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کو بعد میں کالعدم قرار دیا گیا مگر آج تک اس جماعت کی کارروائیاں بند ہوئی ہیں نہ مکمل قلع قمع ہوسکا۔ سال 2007 کا دسمبر راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے بھلائے نہیں بھولتا۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی کسی نہ کسی حوالے سے آج بھی پاکستانی سیاست پر اثراندازہے۔ بے نظیر کی وصیت کے مطابق پارٹی ان کے شوہر آصف زرداری کے پاس چلی گئی۔ بلاول بھٹو اس کے چیئرمین ہیں مگر آج بھی پارٹی کے اندر سکہ آصف علی زرداری کا ہی چلتا ہے۔

اوپر درج کیے گئے وہ چند چیدہ چیدہ واقعات ہیں جو سال 2007میں رونما ہوئے۔ ان سب پر ایک جامع تحقیق کی ضرورت ہے۔ پتہ نہیں وہ تحقیق ہوگی بھی یا نہیں لیکن سوچا کہ آپ کے ساتھ اپنی ایک ادھوری اور کمزور خواہش کا تذکرہ کردوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے