ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی درندگی کا شکار ہونے والی ذیشان کی فیملی بہر حال اتنی خوش قسمت تو تھی کہ اس کے لیے گلی گلی آواز اٹھی ، پوری قوم نے ان کا ماتم کیا ۔ میڈیا نے اس ننگے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ۔ ہم ان بچوں کو دیکھتے تھے تو اپنے بچے سامنے آ جاتے تھے ۔ ان معصوم بچوں کے کپڑوں پر خون کے چھینٹے دیکھ کر دماغ شل ہو گئے ۔ مقدمہ عدالت میں بھی گیا ۔ وکیل بھی سامنے آ گیا تھا ۔ پارلیمان نے بھی نوٹس لیا ۔ سینیٹ میں ذیشان کی ماں نے جب اپنا کلیجہ چیر کر دکھایا تو جس کے ہاتھ میں بسکٹ تھے ، گر گئے ، آنکھیں دھندلا گئی تھیں ۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور لفظ حلق میں پھنس کر رہ گئے تھے ۔وہ تصویریں دیکھتے تو بے قراری بڑھتی جاتی تھی ۔
لیکن لورا لائی کا پروفیسر ارمان لونی اسکی بہن ، بیوی اور بچے اتنے بدقسمت ہیں کہ جن کا جنازہ پڑھنے اور خبر نشر کرنے سے بھی ہمارا ایمان تباہ ہو نے کا خطرہ تھا ۔ انہیں علم تھا کہ منظور پشتین ، محسن داوڑ اور علی وزیر کے اگر جنازہ پڑھ لیا تو یہ ظلم کا جنازہ ہوگا ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے بستوں میں اسلحہ رکھ کر انہیں دہشت گرد قرار دیا جائے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ ان پڑھے لکھے پشتون نوجوانوں کی بات ہر قوم ، قبیلے کی بات ہے ۔ انسانی تاریخ میں یہ عجیب و غریب دہشت گرد ہیں جو عدم تشدد کی بات کرتے ہیں ۔ یہ اسلحہ نہیں اٹھاتے ۔ یہ آئین کی بات کرتے ہیں ، یہ ریاست سے بغاوت کی بات نہیں کرتے لیکن ان پر حملے کرنے والے جب بھی حملہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے آئین پاکستان پر حملہ کرتے ہیں ۔ انسانی حقوق پر حملہ کرتے ہیں ۔
یہ وڑانگہ لونی ہے ۔ اس کے بھائی نے اسے پڑھایا ، سیاست میں لایا ۔ ایک روز کوئٹہ میں وڑانگہ لونی کہہ رہی تھی کہ جب ہمارے نوجوان مرتے ہیں تو روتی مائیں ہیں ، ماتم بہنیں کرتی ہیں ۔ ہمیں گھروں میں بیٹھ کر رونے کے بجائے اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آنا ہوگا ۔
اس ملک میں کوئی بیرونی ایجنٹ نہیں ، یہ ادارے مختلف لابیز کے ہاتھوں میں کھیل کر ہمارے پھول جیسے بچوں کو دہشت گرد بناتے ہیں ۔ یہ چار سو سے زائد ماورائے آئین قتل کر مرتکب راؤ انوار کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ یہ عدالتوں کو نہیں مانتے ، پارلیمان کو نہیں مانتے ۔ ان میں اور صوفی محمد میں صرف اتنا فرق ہے کہ انہیں کوئی مائی کا لال جیل میں نہیں ڈال سکتا ۔
مولوی صدیوں سے ان کا ٹول ہے جو دہشت اور وحشت گردی کو دلائل سے مزین کر کے ہمیں مذہبی طور پر لاجواب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن اسے علم نہیں کہ مصلی اس کے قدموں کے نیچے سے سرک رہا ہے ۔ دستار کی تاروں میں اڑنگنیاں آ چکی ہیں ۔ مشک و عنبر کا اب خوشبو سے یارانہ نہیں رہا ۔ ان استری شدہ لباسوں اور عماموں کے پیچھے نفرت کے بیوپاریوں کے چہروں سے معصوم بچوں کی لاشوں نے نقاب کھینچ کر انہیں ننگا کر دیا ہے ۔
ارمان لونی کی بہن وڑانگہ لونی نے اپنے بھائی کی سفاکانہ موت پر کوئی گلہ نہیں کیا ۔ کسی کو برا بھلا نہیں کہا ۔ وہ کہہ رہی تھی کہ ہم اس ملک کی ستر سالہ تاریخ کے وہ پیاسے ہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ وہ کہہ رہی تھی اور ہم اسے س ن کر سن ہو ئے جا رہے تھے ،وہ میت پر بیٹھی عدم تشدد کی بات کر رہی تھی ۔ وہ بھائی کے چہرے پر بوسے دیتے ہوئے امن کی بات کر رہی تھی ۔ ملالہ یاد آگئی ،،،، ملاوں نے جسے گالی بنا دیا ہے ۔ ملالہ جس نے اپنےزخمی اور ٹیڑھے منہ سے پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ دنیا بھر میں بہتر بنانے کی کوشش کی ۔ کتنا کرتی ، ہم روزانہ بگاڑتے ہیں ۔ وہ روزانہ سنوارتی ہے ۔ سوات کو لوگ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں ۔
مجھے مشال کی ماں اور بہن یاد آ گئی ۔
خلیل جبران خلیل سے کسی نے پوچھا تھا کہ قیامت کیا ہے ؟ تو اس بوڑھے دانشور نے تاقیام قیامت جملے کو قیامت بنا دیا تھا ۔
کہنے لگا
"جب بوڑھا باپ جوان بیٹے کی میت کو لیکر قبرستان کی جانب قدم اٹھا رہا ہوتا ہے ، وہ لمحہ قیامت ہو تا ہے” ۔
مشال کا بوڑھا باپ ، عدم تشدد کا پرچارک ، میت اٹھائے صبر کا درس رہا تھا ، لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ دیکھو یہ صرف میرے بیٹے کا مسئلہ نہیں ، ہر بیٹے کا مسئلہ ہے ۔ یہ میرے گھر کی لاش نہیں ، ہر آنے والی لاش کا مسئلہ ہے ۔
درندگی چیخ رہی تھی ، اس دن چشم فلک نے مشال کی زمین پر ایڑھیوں کے سہارے کھڑے بہت سے "بلند قامتوں ” کو بونے بنتے دیکھا تھا ۔ برسوں پہلے اس زمین کا نام کسی نے "مردان” رکھا تھا جسے دنیا اب مشال کے نام سے جانتی ہے ۔ مردان کو "مرد” ملا تو وہ مشال بن گیا ۔ یہ لاش میدان جنگ سے نہیں ، یونیورسٹی سے آئی تھی . مردان سے گذرتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک مقتل کو یونیورسٹی کیسے کہا جا سکتا ہے ؟؟
یاد آیا مشال کی ماں نے بھی ایک جملہ کہا تھا ، جملے میں قیامت تھی ۔ پامال لاشے کی وارث ماں کہنے لگی
” لوگو ، میں اپنے بیٹے کے چہرے پر بوسہ دینا چاہتی ہوں لیکن کیا کروں کہ پورا چہرہ زخمی ہے ۔ میرے بوسے سے اس کو کہیں اور تکلیف نہ ہو ”