کیا عمران حکومت ناکام ہو رہی ہے ؟؟

آج حکومت پر ناکام حکومت کی چھاپ لگائی جا رہی ہے، صرف چند ماہ میں عمران کا گراف ناقابل یقین حد تک گر چکا ہے، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھ کر تبدیلی کے خواب دیکھنے والے عوام مایوسی کے دلدل میں دھنستے جا رہےہیں، مگر کچھ لوگ اب بھی فرد واحد سے امید لگائے ہوئے ہیں، عمران خان پر الزام، نظریات سے منحرف ہونے اور سب سے زیادہ یوٹرن لینے والے شخصیت کا بھی ہے، مگر سیاسی نابالغوں نے شاید پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، قیام پاکستان سے ہی ہمارے سیاسی رہنما سیاسی مجبوریوں کی زنجیروں میں بندھے ملیں گے، قائداعظم، زوالفقارعلی بھٹو، نواز شریف یا عمران خان سب جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے اورہیں، مگر ان نااہل طبقے کے ساتھ کے بغیر آگے بڑھنے کا عمل بھی ممکن نہیں، قائداعظم نے عام مسلمانوں کو آگے بڑھا کر، مراعات یافتہ طبقہ پر ضرب لگانے کی کوشش کی تھی، اس مقصد کے لئے انہوں نے جمیعت علمائے ہند اور مجلس الاحرار کے ساتھ تعاون کا سمجھوتا بھی کیا، لیکن انتخابی ضروریات کی وجہ سے انہیں یہ سمجھوتا ختم کرنا پڑا اور جاگیر داروں کی مدد لینا پڑی،

پنجاب میں تحریک پاکستان کا زور ہونے کے باوجود مسلم لیگ جیت حاصل نہ کر پائی، یہاں تک کہ گورنر پنجاب نے مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نواب معمدوف کو دو مرتبہ حکومت سازی کی دعوت دی، مگر وہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے، نینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبروں نے سر خضرحیات ٹوانہ کی قیادت میں کانگریس اور اکالی دل کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، حکومت میں سردار فاروق لغاری کے دادا سردار جمال لغاری بھی شامل تھے، جب پاکستان کا قیام یقینی ہوگیا، مسلم لیگ نے اپنی عوامی طاقت کا ثبوت دے دیا، تو یہی جاگیردارانہ ٹولہ مسلم لیگ بن گیا، یہی وہ سلسلہ ہے جو آج تک جاری ہے، یہی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا، وہ محنت کشوں کو منظم کرتے رہے، الیکشن آیا توپیپلز پارٹی کو پرانی روش پر چلنا پڑا کیونکہ انتخابات کے موقع پر اصل مسئلہ اسمبلیوں کی نشستیں جیتنے کا ہوتا ہے، نواز شریف یہی سوچ لیے جاگیردارانہ نظام پر ضرب لگانے کے لئے سیاسی میدان میں کودے اور بالآخر اس نظام میں خود ہی رنگے گئے، آج بھی ہرحکومت میں وہی جاگیردار طبقہ آگے ہوتا ہے جو انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے، نسل در نسل یہی سلسلہ جاری ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو ہر وقت اقتدار کے مسندپر نظریں جمائے رکھتا ہے، مل جائے تو بسم اللہ ورنہ دروازے کے باہر پر بیٹھ جاتا ہے اور انتظار میں رہتا ہے کہ نہ جانے کب اندر جانے کی اجازت مل جائے،

قیام پاکستان کے وقت ہمارا آئین برطانوی بادشاہت کی طرز پر تھا، 1956 میں پہلا آئین تشکیل دیا گیا، سکندر مرزا نے بطورصدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا منصب سنبھالا تو عمومی طور پر انگریز کی جگہ فوج نے لے لی، اس دن سے ہر فوجی حکمران اپنے اقتدار کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں تیار کرتا ہے، یہ سیاسی جماعتیں پلک جھپکتے ہی معرض وجود میں آجاتی ہیں اور فوجی مقتدر قوتوں کو آئینی فریضہ سرانجام دینے کا جواز بھی پیش کرتی ہیں، ایوب خان اور جنرل ضیاءالحق کی جماعتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، تحریک انصاف کی کہانی اسی سے مماثلت رکھتی ہے،کئی سال سے علاقے علاقے جاکر ممبر بنانے والا عمران خان کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پا رہا تھا، مگر چند سالوں میں ہی مقتدرقوتوں نے وہ مقام دلایا، جس کی اتنی جلدی خواہش کا اظہار شاید عمران خان نے خود بھی نہ کیا ہو�

موجودہ حکومت کو کسی بڑی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں ، ایم این ایز، ایم پی ایز اپنی ضرورتوں کے بندھن میں بندھے زبردستی حکومتی گاڑی چلائے جا رہے ہیں ہر کسی کو اپنے وزارت کی فکرہے، عوامی مسائل اور ان کی تدارک کی کسے پروا ہے، نیا پاکستان مہنگائی کے بھنور میں پھنستا جارہا ہے، رہی سہی کسر عمران خان کی ناقص پالیسیوں اور فیصلوں نے پوری کردی ہے، ایک تحصیل نظامت سنبھالنے والے کے ہاتھ 12 کروڑ عوام کے مستقبل اور ایڈمنسٹریشن کی باگ ڈور تھما دی ، جس کی اہلیت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ موصوف اپنی زبانی کہتے ہیں کہ مجھے تجربہ نہیں، سیکھ رہا ہوں، سیکھ جاؤں گا، خان صاحب ملاح کشتی چلانے کے عمل کو سیکھتے سیکھتے کہیں سفینہ ہی ڈوبا نہ دے، جس کا بعد میں صرف پچھتاوا ہی رہے ، اس جاگیردار طبقے سے جان چھڑوانا اتنا آسان نہیں زیادہ کوشش کی گئی تو اپنا وجود خطرہ میں پڑسکتاہے، انہیں ساتھ رکھتے ہوئے قابل اور دانشور لوگ سامنے لائیں ،جو ملک کی معیشت کو سنبھال سکیں، عوام کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں، جن کے حل کا آپ نے وعدہ کیا تھا، ورنہ بوریا بسترا سمیٹیں اور گھر جائیں، اس غلامی کی پسی ہوئی قوم پر مزید آزمائش کا سبب نہ بنیں….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے