اب نہیں کوئی بات خطرے کی

ارشد شریف کا اپنے پروگرام کے بعد فون تھا کہ ملتے ہیں۔ وہاں پہنچا تو وزیراعظم کے سیاسی مشیر ندیم افضل چن بھی موجود تھے۔ بڑا عرصہ ہوا ندیم افضل چن سے ملے۔ ان سے دعا سلام پیپلز پارٹی دور میں شروع ہوئی تھی جب وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر بنے۔ چوہدری نثار کمیٹی کے چیئر مین تھے تو وہ اپنی مرضی سے کمیٹی چلاتے تھے۔بلاشبہ چوہدری نثار دبنگ تھے اور کمیٹی کو اچھا بھی چلایا لیکن وہ اپنی پارٹی کے معاملات میں ڈنڈی مار جاتے تھے جہاں انہیں ندیم افضل چن پکڑ لیتے تھے۔ کمیٹی کے اجلاسوں میں چوہدری نثار اور ندیم افضل چن کے مختلف مزاج کی وجہ سے مزہ رہتا لیکن کبھی معاملہ تلخی تک نہ پہنچا ۔ چوہدری نثار ناراض ہوگئے تو ندیم افضل چن کو کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ ندیم افضل چن کے اندر ایک دیہاتی رہتا ہے‘ لہٰذا ان کی باتوں میں وہ ذہانت نظر آتی ہے جس سے شہروں کے رہنے والے محروم ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اندر بھی چن صاحب نے اچھی تقریریں کیں اور خود کو منوایا ۔ آج بھی ٹی وی پر ندیم افضل چن کو سنیں تو آپ کو وہ باقی سیاسی لیڈروں سے مختلف اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی وجہ سے وہ میرے اور ارشد شریف جیسے صحافیوں کی اس لسٹ میں ہیں جن کی ہم عزت کرتے ہیں۔ خوشی ہوئی وزیراعظم عمران خان نے ایک سیاسی بندے کو اپنا مشیر لگایا ‘ جسے سیاست اور پارلیمنٹ کا تجربہ ہے اور جو سیاسی گفتگو کرنا بھی جانتا ہے۔ جو مخالف کو گالی سے نہیں دلیل سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ندیم افضل چن نے جب پیپلز پارٹی کو چھوڑا تھا تو بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی کیونکہ وہ زرداری اور بلاول کے بڑے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ میری ان سے دو تین دفعہ ملاقات تحریک انصاف کے ایک بڑے لیڈر کے گھر بھی ہوئی‘ افواہیں گرم تھیں کہ وہ جلد نئی پارٹی جوائن کرلیں گے۔

میں نے پوچھا تو وہ ہنس کر ٹال گئے ۔ ندیم افضل چن غالباً ان لوگوں میں سے تھے جن کا خیال تھا کہ پنجاب میں اب پیپلز پارٹی کو عروج نہیں ملے گا ‘لہٰذا اپنا سیاسی کیرئیر بچایا جائے۔ جو حشر زرداری صاحب نے پارٹی کا کر دیا تھا اس کے بعد پارٹی کا ووٹ بینک بری طرح گر رہا تھا اور چن جیسے سیاسی ورکرز کے لیے ان کا دفاع مشکل ہورہا تھا۔ اگرچہ بلاول نے کوشش کی کہ پارٹی کو پنجاب میں سنبھالا جائے لیکن زرداری صاحب پھر پنجاب کے دورے پر نکل پڑے یوں پارٹی نیچے جاگری اور پچھلے سال ہونے والے انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا کہ وہ پھر پنجاب سے ووٹ لینے میں ناکام رہے۔

خیر! ندیم افضل چن سے گفتگو ہونے لگی ۔ ارشد شریف حسبِ عادت خاموشی سے سن رہے تھے۔ باتوں باتوں میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کا ذکر ہوا تو ہمارا خیال تھا کہ وہ مختلف قسم کے جج سمجھتے جاتے ہیں۔ ان کی پہلی تقریر پڑھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کے اندر ایک آئیڈئیلسٹ ہے جو کچھ ایسے کام کرنا چاہتا ہے جو ان سے پہلے کسی چیف جسٹس نے نہیں کیے۔ وہ کہتے ہیں‘ وہ زیادہ سو موٹو نہیں لیں گے‘ اداروں کاجو کام ہے وہی کریں‘ عدالت ان کے کام میں کیوں مداخلت کرے ۔ میں نے کہا: اس کا مطلب ہے سیاسی پارٹیاں کامیاب ہوگئی ہیں کہ انہیں اندھا دھند حکومت کرنے دی جائے ۔ یہی دیکھ لیں‘ ساہیوال کے قریب سرعام روڈ پر قتل ہونے والے چار افراد پر سوموٹو نہیں لیا گیا ۔ تو سپریم کورٹ کے ایکشن نہ لینے سے باقی ادارے انصاف دے رہے ہیں ان مظلوموں کو؟ الٹا سب سیاسی اور سرکاری ادارے مل کر ان چار لاشوں کو دفن کرنے میں لگے ہیں نہ کہ ان کے قاتلوں کو سزا دینے میں‘ کیونکہ انہیں تسلی ہے کہ سپریم کورٹ ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گی ۔

میں نے کہا: سوال یہ ہے کہ عدالتوںکو مداخلت کی کب ضرورت پڑتی ہے؟اگر ریاستی ادارے کام کررہے ہوں تو کوئی مداخلت نہیں کرتا ۔ جب کوئی ادارہ اپنی جگہ خالی کرتا ہے تو دوسرا آگے بڑھ کر جگہ سنبھال لیتا ہے۔ ادارے اس جگہ ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے جہاں ٹاپ پر لیڈرشپ ایماندار اور بیوروکریسی کمٹڈ ہوتی ہے۔

کیا ہمارے ہاں ایسا افسر ہوگا جو ایف بی آئی کے سابق سربراہ جیمز کومی کی طرح امریکی صدر کو منہ پر کہہ دے کہ جناب سوری آپ مجھ سے ذاتی وفاداری کی نہیں بلکہ ایمانداری کی توقع رکھیں اور اسے اس گستاخی پر چھ سال پہلے ریٹائرکر کے گھر بھیج دیا جائے اور وہ پھر بھی پروا نہ کرے؟

آپ بتائیں عدالتیں زیادہ تر کن معاملات پر نوٹس لیتی آئی ہیں؟ آپ اعدادو شمار اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا بیوروکریسی کی نالائقی اور نااہلی کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔ ہر دوسرا ایشو جس پر عدالت سوموٹو لیتی آئی ہے وہ سیاستدانوں سے زیادہ بیوروکریسی سے متعلق ہے۔ بیوروکریسی نے ہی سیاستدانوں کو یہ شکایتیں کرنا شروع کی تھیں کہ عدالتیں ہمیں کام نہیں کرنے دیتیں۔ جنرل مشرف کو ججوں کے خلاف بھڑکانے والے اور کوئی نہیں شوکت عزیز تھے کہ میرے افسران کو عدالتوں میں روزانہ بلایا جاتا ہے ۔ شوکت عزیز کو یہ پٹی ان افسران نے پڑھائی تھی کہ ہم کیا کریں عدالتیں بلا لیتی ہیں۔

یہ سلسلہ زرداری دور میں بھی چلا ۔ ان افسران سے کسی نے نہ پوچھا کہ لوگوں کو تم سے شکایتیں کیوں ہیں؟ کوئی اچھا حکمران ہوتا تو الٹا عدالتوں کا شکر گزار ہوتا کہ جناب آپ کی مہربانی آپ ہمارا گند صاف کرتے رہیں ۔ جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ میرے وزیر یا سرکاری افسران عوام کے کام میں کوتاہی برت رہے ہیں‘ آپ ان کے خلاف کارروائی کریں‘ کیونکہ حکومت کا کام عوام کی فلاح اور بہتری ہوتا ہے چاہے وہ خود کرے یا عدالتیں ان کی مدد کریں۔ لیکن جہاں حکمرانوں نے خود بابوز سے فائدے اٹھانے ہوں ‘ ان کی ذہانت کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے استعمال کرنا ہو تو وہاں یہ بات پھیلے گی کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا ۔

میں نے ارشد شریف اور ندیم افضل چن سے پوچھا : مجھے ایک بات بتائیں‘ اگر سپریم کورٹ پانامہ سکینڈل پر کارروائی نہ کرتی‘ جے آئی ٹی نہ بناتی‘ شریفوں کے پانامہ اور آصف زرداری کے جعلی اکاؤنٹس سکینڈل پر بھی سپریم کورٹ سٹینڈ نہ لیتی تو کون یہ جرأت کرسکتا تھا ؟

عدالتیں وہاں مداخلت نہیں کرتیں جہاں سب کام ٹھیک ہورہا ہوتا ہے۔ آپ ریاست کو یوں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے جب ہر طرف مار دھاڑ ہورہی ہو۔ سیاست میں ٹھیکیدار‘ ریئل اسٹیٹ ایجنٹ‘ منی لانڈرنگ کے بادشاہ اور فراڈیے جیبیں بھر کے سیاست میں گھس گئے ہوں تو پھر عدالتوں اور میڈیا کو ایکٹو رہنا پڑے گا ‘ورنہ پوری ریاست لٹ جائے گی ۔

ابھی دیکھ لیں عدالت نے ساہیوال معاملے پر سوموٹو نہیں لیا تو جن کے گھر چار لاشیں بھیجی گئی ہیں وہ اپنا غم بھول کر دربدر پھر رہے ہیں کہ کوئی انہیں انصاف دلوائے۔ میں درجنوں پولیس افسران سے بات کرچکا ہوں وہ سب پولیس کو بے گناہ سمجھتے ہیں ۔ جب ٹاپ پر بھی پولیس یہ سمجھتی ہے کہ ان چار لوگوں کے قاتلوں کو ہمیں بھول جانا چاہیے تو پھر بتائیں معاشرہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اگر عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں تو تسلی رکھیں انصاف نہیں ہوگا ۔ یہ بات طے ہے کہ اگر تھرڈ ورلڈ ملکوں میں حکومت اور حکمرانوں پر میڈیا اور عدالتوں نے سختی نہ رکھی تو یقین رکھیں ریاست کمزور ہوگی ۔ لوگوں کا اعتماد ریاست پر سے اٹھ جائے گا ۔

باتوں باتوں میں بات سپریم کورٹ کے بدھ کے روز فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر پہنچی۔ میرا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک چارج شیٹ ہے ریاست کے سب اداروں کے خلاف ۔ ریاست کے سب ادارے بشمول میڈیا ناکام ہوئے ہیں ۔ کسی نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ کسی نے ریاست پر رحم نہیں کیا ۔ سب نے بگاڑ میں حصہ ڈالا ۔ اس فیصلے کو پڑھیں تو سب ہی ریاست پاکستان کے ملزم ہیں ۔ یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں پہلے سب سرکاری اور غیرسرکاری ملزمان کی کھل کر شناخت کی گئی ‘ جنہوں نے ریاست کے خلاف کھل کر کام کیے اور پھر اس فیصلے میں ہی اہم ملزموں سے کہا گیا ہے کہ اب وہ خود اپنے خلاف ان سنگین جرائم پر قانونی کارروائی کریں ۔ اب ذرا بتائیں‘ ریاست پاکستان کے یہ بڑے بڑے ملزمان کیسے اپنے ہی خلاف کارروائی کریں گے؟
جون ایلیایاد آگئے۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے