مسئلہ کشمیر’کل جماعتی قومی مشاورت’۔۔۔سفارتکاری یا جہاد؟

ہر سال 5 فروری کا دن پاکستانی قوم کشمیریوں سے اظہار یکجیتی کے لیے پوری دنیا میں مناتی ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کو ملانے والے راستوں پر بھی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بھارتی انتظامیہ کے ظلم و ستم کے خلاف ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ اس حوالے سے 2 فروری کو اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے زیر انتظام ‘کل جماعتی قومی مشاورت’ اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس میں پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے علاؤہ تقریباً دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی اور مشترکہ اعلامیہ بھی پیش کیا گیا.

اس کانفرنس میں کیا ہوا’ یہ سب عوام تک بھی پہنچنا چاہئیے۔ کنٹرول لائن کے اس پار بیٹھے ہوئے ہمارے کشمیری بھائی کو بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ پاکستان جو ہر سال 5 فروری کو اظہار یکجیتی کرتا ہے’ اس بار بھی کچھ نیا کیا ہے یا نہیں۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمان صاحب کا کردار بحیثیت کشمیر کمیٹی چیئرمین بھی ہم سب نے دیکھا ہے اور آج اس کانفرنس کے میزبان ہونے کی حیثیت سے بھی ہم سب کو معلوم ہونا چاہئیے۔

میرے نزدیک ‘کل جماعتی قومی مشاورت’ اجلاس کا انعقاد ایک احسن قدم ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان یا نمایندگان نے جماعتی نظریے کے تحت خطاب کیا۔

بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان کے کردار پر غیر محسوس انداز میں انگلیاں بھی اٹھائی گئیں۔ کہیں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ باوجود اس کے کہ مولانا صاحب 2008 سے 2018 تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے لیکن کمیٹی کا کام سفارشات تیار کر کے پارلیمنٹ میں بھجوانا ہوتا ہے’ کشمیر کو موقع پر آزاد کروانے کا نہیں۔ اس کانفرنس میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اکثر وہ جماعتیں جو پی ٹی آئی مخالف نظریات رکھتی ہیں’ وہ سب کی سب مولانا نہ اسلام آباد میں جمع کر لیں۔ مشترکہ اعلامیہ اس بات کا داعی ہے مسلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بنائی گئی کسی بھی حکمت عملی میں آزاد کشمیر کی سیاسی و مذہبی قیادت سے مشاورتی عمل کیا جائے تاکہ کشمیریوں کے جذبات کی ترجمانی ہو۔

اس کانفرنس کے منفی پہلو میں یہ بات واضح ہونی چاہئیے کہ کشمیر کیسے آزاد ہو گا۔ سفارتکاری یا جہاد سے؟

کانفرنس کے دوران سیاسی شخصیات نے کشمیر کے حل کے لیے سیاسی یا سفارتکاری کا حل پیش کیا اور مذہبی جماعتوں نے اس کو افغانستان میں ہونے والے جہاد سے جوڑ دیا’ کشمیر کا حل بھی جہاد سے ہو گا۔ اس میں سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعین کون کرے گا کہ کشمیر کا فیصلہ سفارتکاری سے ہونا ہے یا جہاد سے۔ دنیا میں موجود مختلف ممالک کے مسئلے فارمولے دے کر حل کی گئے۔ پاکستان میں شملہ معاہدہ ہو یا سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کا چار نکاتی فارمولہ’ اجتماعی حیثیت میں یہ دونوں رد کر دیے گئے ہیں۔اگر سفارتکاری ہی کی بات کر لی جائے تو پاکستان کمزور سمجھا جاتا ہے۔

مختلف سیاسی و غیر سیاسی حکومتوں کی کشمیر پر حکمتی عملی یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سامنے رکھ کر دوستی یا دشمنی کا تعین کیا جاتا ہے لیکن کشمیریوں کے جذبات کو زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ کشمیر ہی کے مسئلہ کو ممالک لڑائی جھگڑوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن منفی درجہ حرارت میں موجود کشمیری کا خون جم جاتا ہو گا’ اس کا خیال نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس بھارت کی سفارتکاری کو پائیدار سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں مختلف حکومتوں کی بنائی گئی پالیسیوں کا تسلسل ایک جیسا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے مراسم ترقی پسند ہیں ۔ اقوام متحدہ میں بھارتی لابی کو عیار کہا جاتا ہے۔ جہاد کا پہلو لے لیا جائے تو کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے والے کو بھی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ کے خلاف صف آراء نوجوانوں کو پاکستانی دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان’ مولانا سعید یوسف’ آصف علی زرداری’راجہ ظفر الحق ‘خالد مقبول’ امیر حمزہ’ راجہ فاروق حیدر’ سردار مسعود خان’ سردار یعقوب’ڈاکٹر خالد’ عبد الرشید ترابی سمیت دیگر کئی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ عوامی طاقت کا رخ سفارت کاری کی طرف ہونا چاہئیے یا جہاد کی۔

اجتماعی حیثیت میں ‘کل جماعتی قومی مشاورت’ اس بات پر متفق نہ ہو سکی کہ کشمیر کو سفارتکاری سے حاصل کیا جائے گا کہ جہاد سے۔

دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اور جب سوشل میڈیا پر بھی ہر ایک شخص آزادی کا اظہار کر رہا ہو تو ایسے وقت میں مسئلہ کشمیر کے حل کا طریقہ کار بھی واضح ہونا چاہئیے۔ بھارتی انتظامیہ کا انسانیت سوز ظلم و ستم میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں پہنچ رہا ہے’ دوسری طرف پاکستان کی سفارتکاری اور جہاد پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں پر مستقل مزاجی کے نہ پائے جانے پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو دوسری طرف اسلام آباد یا کسی اور شہر میں گرم کمروں میں بیٹھ کر تجاویز دینے والوں سے بھی کئ شکوے ہیں’ یہ واضح کیوں نہیں ہو سکا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے سفارتکاری اپنائی جائے یا جہاد۔5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر جمعیت علماء اسلام پاکستان نے ‘کل جماعتی قومی مشاورت’ اجلاس بلا کر موجودہ حکومت پر سبقت لے تو لی ہے لیکن آئندہ جس بھی جگہ کانفرنس ہو’ میرے اٹھائے گئے سوالات کو مدنظر رکھ کر قوم کو واضح اور ٹھوس نظریہ دیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے