کسی کو این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہوگا: وزیراعظم عمران خان

بلوکی: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہےکہ جس نے ملک کا دیوالیہ نکالا ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور جو بھی سوچ رہا ہےکہ حکومت کسی کو این آر او دے گی تو وہ یہ سمجھے کہ اگر ہم این آر او دیں گے تو ملک سے غداری کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے بلوکی میں پودا لگا کر’پلانٹ فار پاکستان‘ مہم کا آغاز کردیا۔

انہوں نے کہا کہ درخت لگانا شوق نہیں زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی لاہور اور دلی میں ہے، جنگلات کمی کے باعث ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، ملک کو کرپٹ اور قبضہ گروپوں سے بچائیں گے ،تجاوزات ختم کر کے جنگلات کی اراضی واپس لیں گے۔

این آر او کی سختی سے تردید

اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر این آر او سے متعلق خبروں کو سختی سے مسترد کردیا۔

عمران خان نے کہا کہ ’آج کل این آر او کی بڑی بازگشت ہے، این آر او وہ ہوتا ہے جو آپ بڑے مجرموں کو معاف کردیں، دو این آر او نے ملک کو تاریخی نقصان پہنچایا، آج جو ہمارے حالات ہیں، ملک مقروض ہے، اس کی بڑی وجہ دو این آر او ہیں‘۔

دو این آر او نے ملک کو تاریخی نقصان پہنچایا: وزیراعظم
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ایک این آر او مشرف نے نوازشریف کو دیا جس میں شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کا بنا بنایا کیس تھا، اس میں اسحاق ڈار کا اعترافی بیان تھا کہ کس طرح منی لانڈرنگ ہوئی لیکن این آر او دے کر وہ کیس روکا گیا اور انہیں سعودی عرب جانے دیا تاکہ مشرف کی کرسی خطرے میں نہ آئے، دوسری طرف 2 ارب روپے زرداری کے سوئس کیس پر قوم کے خرچ ہوئے، لندن میں سرے محل کیس ہوا جو پاکستان حکومت جیت گئی یہ پیسہ پاکستان کو ملنا تھا لیکن این آر او سائن ہوا اور وہ کیس بھی چھوڑ دیا گیا‘۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ’ ان دو این آر او سے طاقتور لوگوں نے سمجھا کہ چوری کوئی بری چیز نہیں، کرپشن جتنی کرو طاقتور چور کو پاکستان میں نہیں پکڑا جاتا، اس کا نتیجہ یہ ہےکہ 2008 سے 2018 تک ان این آر او والے دو لیڈر نے پانچ پانچ سال حکومت کی، پاکستان کا قرضہ 60 سالوں میں 2008 تک 6 ہزار ارب تھا لیکن ان کے دو این آر او کے بعد پاکستان کا قرضہ 30 ہزار ارب ہوگیا کیونکہ کسی کو خوف نہیں تھا‘۔

دو این آر او کی وجہ سے جو قوم کو آج مصیبتیں پڑی ہیں: عمران خان
ان کا کہنا تھا کہ’ یہاں بڑے چوروں کو کوئی نہیں پکڑتا، ان دو این آر او کی وجہ سے جو قوم کو آج مصیبتیں پڑی ہیں، مہنگائی ہے، روپیہ گررہا ہے، جب آپ قرض لیں گے اور تاریخی خسارے چھوڑیں گے تو قیمت عوام ادا کرے گی، آج مشکلات ہیں اور مہنگائی ہے، جنہوں نے دس سال اس ملک کو مقروض کیا آج ان کی ٹی وی پر شکلیں دیکھتا ہوں وہ کس طرح آکر کہتے ہیں آپ نے پانچ ماہ میں کیا کیا‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’قرض وہ چھوڑ کر جائیں اور جواب ہم سے مانگیں، جب فیکٹری قرض میں ہوگی تو ٹھیک نہیں ہوگی تو ملک کیسے ٹھیک ہوگا، یہ کس منہ سے کہتے ہیں اچھا کام کرکے گئے، کون گھر کا دیوالیہ نکلا کر کہتا ہے ہم اچھا گھر چھوڑ کرگئے‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’جو بھی سوچ رہا ہےکہ حکومت کسی کو این آر او دے گی تو وہ یہ سمجھے کہ اگر ہم این آر او دیں گے تو ملک سے غداری کریں گے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کسی کو این آر او دیں‘۔

کسی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ جیل سے ایک آدمی آکر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جائے: وزیراعظم
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’جس نے ملک کا دیوالیہ نکالا ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے، کرپشن کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، جتنا اسمبلی میں شور مچ رہا ہے، ہم کوشش کررہے ہیں اسمبلی ٹھیک طرح چلے، جمہوریت کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ ایک جیل سے آدمی اٹھ کر آئے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جائے اور پھر اسی نیب کو طلب کرلے، کہیں بھی کسی جمہوریت میں کوئی تصور نہیں کرسکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس پر بھی پارلیمنٹ چلانے کی کوشش کی لیکن جتنی کوشش کرنی تھی وہ کرلی ہے، اب کسی قسم کی رعایت کسی کرپٹ آدمی کو نہیں دیں گے‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں تبدلی کیا ہے، یہ تبدیلی ہے کہ کبھی سنا حکومت کو پانچ ماہ ہوں اور اس کے تین وزیر استعفیٰ دیں، ان پر اربوں کی چوری آتی ہے، جعلی اکاؤنٹس آتے ہیں، مرے ہوئے لوگوں کے اکاؤنٹ نکلتے ہیں لیکن کوئی استعفے کا نہیں سوچتا، برسراقتدار حکومت اپنے اور دوسروں میں فرق نہیں کرتی، احتساب کسی میں امتیاز نہیں کرتا، یہ ہے وہ حکومت جو صحیح معنوں میں احتساب کرے گی۔

بلوکی میں گرونانک یونیورسٹی بنانے کا اعلان

اس موقع پر وزیراعظم نے بلوکی ریزورٹ پارک کو بابا گرونانک کے نام پر رکھنے اور علاقے میں گرونانک یونیورسٹی بنانے کا بھی اعلان کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے