نظریہ مقبول بٹ، پاکستان،ہندوستان اور ریاست جموں کشمیر

11فروری 1984 کو منقسم ریاست جموں کشمیر کے آزادی پسند رہنما محمد مقبول بٹ ؒ کو بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی ،مقبول بٹ شہید ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری پر یقین رکھتے تھے، انہوں نے اپنی ساری زندگی مکمل آزادی کی جدوجہد میں گزار ی اور بالآخر اسی جدوجہد کے نتیجہ میں تختہ دار قبول کیا.

مقبول بٹ شہید کا نظریہ کیا ہے ؟ کیا اُن کا نظریہ صرف ریاست جموں کشمیر کی آزادی اور خوشحالی کا ضامن ہے یا ہندوستان اورپاکستان کے عوام کی خوشحالی کا راستہ بھی اسی نظریہ سے گزر کے جاتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں حقائق کیا ہیں۔

11فروری 1984 کو منقسم ریاست جموں کشمیر کے آزادی پسند رہنما محمد مقبول بٹ کو بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی

منقسم ریاست جموں کشمیر کی آبادی 2 کروڑ ہے ۔جس میں سے آزادکشمیر 40 لاکھ ، گلگت بلتستان 20 لاکھ اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آبادی 1 کروڑ 40 لاکھ ہے ۔پاکستان اور ہندوستان کے کئی شہروں سے کم آبادی والی اس ریاست کی وجہ سے ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہندوستانی اور پاکستانی عوام کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں، دونوں ممالک اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کررہے ہیں.دونوں ممالک کی ریاست میں کتنی فوج ہے ، اس بارے میں مستند اعدادوشمار موجود نہیں،تاہم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی مبینہ تعداد 7 لاکھ بتائی جاتی ہے ،اگر یہ تعداد 7 لاکھ کانصف ساڑھے 3 لاکھ ہو اور آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستانی فوج کی تعداد ایک لاکھ ہو تو مجموعی طور پر یہ تعداد کم وبیش ساڑھے چار لاکھ بنتی ہے جو دونوں ملکوں کی باقاعدہ فوج کا 20 فیصدسے زائد ہے ۔

منقسم ریاست جموں کشمیر کی آبادی 2 کروڑ ہے

دونوں ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ 72.6 ارب ڈالر ہے ، یوں جموں کشمیر پر فوجی اخراجات 18ارب ڈالر بنتے ہیں ۔جبکہ منقسم ریاست جموں وکشمیر کے تینوں حصوں میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں 4 ارب ڈالر کے قریب رقم خرچ کی جاتی ہے جو دونوں ممالک کے ریاست جموں کشمیر پراٹھنےوالےفوجی اخراجات کے 25فیصد سے کچھ زائد ہے ۔پاکستان کا دفاعی بجٹ 9.6 بلین ڈالر ہے جبکہ مالی سال 2018-19 میں ہندوستان کا دفاعی بجٹ 63 بلین ڈالر رکھا گیا، ہندوستان کی باقاعدہ فوج 14 لاکھ ہے جبکہ 21 لاکھ ریزروفوج ہے ۔

دونوں متحارب ممالک کی طرف سے اسلحہ کی دوڑ میں شمولیت کی وجہ سے ہندوستانی اور پاکستانی عوام کی حالت زار قابل تشویش ہے ۔مثلاً ہندوستان کی راجستھان ریاست میں چپڑ اسی کی 18آسامیوں کے خلاف 13ہزار درخواستیں موصو ل ہوئیں جس میں سے 129انجینئر ، 23وکیل ،1چارٹرڈاکائونٹینٹ اور 393پوسٹ گریجویٹ امیدوار شامل تھے ،دلچسپ بات یہ راجستھان میں گائیوں کی حفاظت کے لیے وزارت گائے قائم کی گئی جس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جائیداد پر 20 فیصد ٹیکس لگایا گیا، دوسری طرف ہندوستان میں ڈالر ارب پتی افراد کی تعدادجو 2017 میں 141 تھی ، اس سال اُس میں 17مزید لوگوں کا اضافہ ہوا ہے ،شائینگ انڈیا (چمکتا ہندوستان )کا نعرہ بھی ایک دھوکہ ہے۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہندوستانی کی مجموعی آمدنی کا 73 فیصد 1 فیصد امیر ترین لوگوں کی جیب میں چلاگیا جبکہ نصف آبادی 67 کروڑ لوگوں کی آمد ن میں ایک فیصد اضافہ ہوا 80 فیصد ہندوستانیوں کی آمدن 10ہزار سے کم ہے ۔

مالی سال 2018-19 میں ہندوستان کا دفاعی بجٹ 63 بلین ڈالر رکھا گیا، ہندوستان کی باقاعدہ فوج 14 لاکھ ہے جبکہ 21 لاکھ ریزروفوج ہے

دوکروڑ سے زائد ہندوستانی فٹ پاتھ پر سوتے ہیں جو ریاست جموں وکشمیر کی مجموعی آبادی کے برابر ہے ۔اس طرف پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی مجموعی آبادی سے دوگنا زائد بچے سکول نہیں جاتے ،صحت اور صاف پانی کی سہولیات ملک کی نصف آبادی کو میسر تک نہیں ۔ 2 کروڑ لوگوں کواپنی تابعداری میں رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے مجموعی طور پر 80 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے ان حالات کے ذمہ دار وہاں کے حکمران ہیں۔تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے حکمران تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی روش پر چل رہے ہیں،آزادی کے ثمرات سے محروم اور شکست خوردہ قوموں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔دونوں ممالک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ ریاست جموں کشمیر کو حل کیا جائے لیکن 70سال میں یہ مسئلہ حل نہ ہونے میں رکاوٹ بھی ان ہی دوممالک کے حکمران ہیں. اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اگر دیکھا جائے تو صورتحال کچھ یوں ہے۔

یکم جنوری 1948 کو بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا دونوں ممالک کے نمائندوں کی اقوام متحدہ میں بحث ہوئی ابتدائی بحث کے بعد قراردادیں منظور ہوئیں ، پہلی قرارداد 13اگست 1948 کو اور دوسری 05جنوری1949کو منظور کی گئی ،ہ ندوستانی مقدمے کے جواب میں پاکستان کے نمائندے ظفراللہ خان کا جواب تھا ہندوستان کا کشمیر میں فوج اتارنے کا مقصد پاکستان کو تباہ کرنا ہے۔

پاکستانی نمائندے ظفراللہ خان نے بانی پاکستان کی جانب سے ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے دوران پیش کردہ تجاویز کے مطابق مطالبہ کیا:

1۔ سلامتی کونسل ایک کمیشن قائم کرے جو کشمیر میں جنگ بندی کا انتظام کرے۔

2۔ کشمیر میں غیر جانبدار انتظامیہ قائم کی جائے۔

3۔ کشمیر سے ساری فوجیں خواہ وہ ہندوستان سے آئی ہوں یا پاکستان سے نکل جائیں۔

4۔ کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کے لیے آزادانہ و منصفانہ استصواب رائے کروایا جائے۔

اقوام متحدہ میں دونوں ممالک (پاکستان اور ہندوستان) کا دعویٰ تھا کہ ریاست کے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے سردار ابراہیم کی قیادت میں بننے والی 24؍ اکتوبر کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ اس لیے سلامتی کونسل میں پاکستان کا ظاہراََ مؤقف تھا کہ عالمی برادری سردار ابراہیم کی حکومت کو تسلیم کرے، جسے ہندوستان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ ہندوستان کا مؤقف تھا کہ مہاراجا نے الحاق کیا ہے۔ اس کے بعد وہاں کے عوام کو اقتدار منتقل کیا گیا ہے، جس کے نگران اعلیٰ شیخ عبداللہ ہیں، لہذا شیخ عبداللہ کی زیر نگرانی بننے والی حکومت کو عالمی برادری تسلیم کرے۔

عملی طور پر دونوں ممالک ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کے خواہش مند تھے۔ اپنے اپنے مفادات کا کھیل اپنے ہاتھ میں رکھ کر کھیلنے کی سوچ کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کشمیریوں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ کشمیری ان کے ساتھ ہیں اور ان سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔

دونوں متحارب ممالک کی طرف سے اسلحہ کی دوڑ میں شمولیت کی وجہ سے ہندوستانی اور پاکستانی عوام کی حالت زار قابل تشویش ہے

یوں کشمیر پر دو دعویدار آمنے سامنے تھے۔ دونوں کشمیر کی وحدت کی بات ضرور کرتے تھے، لیکن ایسی وحدت چاہتے تھے جہاں ان کا اقتدار ہو۔ ان حالات میں اقوام متحدہ ان دونوں (پاکستان اور بھارت) کی مدد سے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتی تھی۔ لہذا دونوں ممالک کے دعوؤں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے جس زاویے پر کام شروع کیا وہ یہ تھا کہ جس کے ساتھ ریاست کے لوگ ہیں، ریاست اس کی۔ بد نصیبی یہ کہ کشمیری لیڈرشپ کے باہمی اختلافات نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ عالمی برادری کے سامنے وہ اپنی حقیقی آزادی کا مقدمہ نہ رکھ سکے۔

یوں17؍ جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 229 منظور کی، جس میں پاکستان اور بھارت کو کشمیر میں صورتحال بہتر کرنے کے لیے کہا گیا۔

20؍ جنوری 1948 کو تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔ کمیشن کے تین اراکین میں سے ایک، ایک پاکستان اور ہندوستان کا تجویز کردہ اور ایک دونوں کی مشترکہ رائے سے تعینات کرنے کا فارمولا دیا گیا۔ یہ کمیشن کام نہ کر سکا۔ اسی سوچ کے تحت اپریل 1948 میں پاکستان نے بھی باقاعدہ اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔

سکیورٹی کونسل نے 21؍ اپریل 1948 کو ایک اور قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد میں الحاق کے بارے میں رائے شماری کرانے کے عمل کو منظور کیا گیا۔

قرارداد 13 اگست 1948:

قرارداد جو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان نے 13 اگست 1948 کو منظور کی

اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان

ریاست جموں و کشمیر کے متعلق ہندوستان اور پاکستان کے نمائندوں نے جس نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے، اس پر پوری احتیاط کے ساتھ غور و خوض کے بعد، اور یہ رائے رکھتے ہوئے کہ مخالفانہ کارروائیوں اور ان حالات کا فوری خاتمہ ضروری ہے، جن کا جاری رہنا بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے تا کہ کمیشن ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو اس صورت حال کو قطعی طور حل کرنے میں مدد دینے کے لیے اپنی کوششوں کو بروئے کار لا سکے۔

ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے سامنے ان تجاویز کو پیش کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔

حصہ اول

التوائے جنگ کا حکم:
(الف) ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اس امر پر اتفاق کرتی ہیں کہ ان کی اپنی اپنی ہائی کمان علیٰحدہ علیٰحدہ مگر بیک وقت التوائے جنگ کا حکم جاری کر دیں گے۔ جو ریاست جموں و کشمیر میں ان کے کنٹرول میں تمام فورسز پر حاوی ہو گا اور جو ان تجاویز کو دونوں حکومتوں کی طرف سے قبول کر لینے کے بعد جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ چار دن کے اندر جاری کر دیا جائے گا۔

(ب) ہندوستانی اور پاکستان افواج کی ہائی کمان یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ ایسے تمام اقدامات سے اجتناب کریں گی جن کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر میں ان کے کنٹرل میں فورسز کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو جائے۔ (ان تجاویز کے مطابق ان کی کنٹرول میں فورسز میں وہ تمام منظم یا غیر منظم فورسز شامل ہیں، جو اس طرف جنگ اور اور مخالفانہ کارروائیوں میں مصروف ہوں۔)

(ج) ہندوستانی اور پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف فوجوں کی موجودہ تعیناتی میں ایسی تبدیلیاں کرنے کے لیے جو جنگ بندی میں آسانیاں پیدا کریں، فوری طور پا آپس میں صلاح و مشورہ کریں۔

(د) کمیشن اپنی مرضی کے مطابق اور جہاں تک قابل عمل ہو گا، فوجی مبصر مقرر کرے گا، جو کمیشن کے اختیارات کے تحت اور دونوں ہائی کمان کے تعاون سے التوائے جنگ کے حکم کی پابندی کی نگرانی کریں گے۔

(ر) ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اپنے اپنے عوام سے یہ اپیل کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہیں کہ وہ ایسی فضا پیدا کرنے اور اسے بحال رکھنے میں مدد دیں جو مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے سازگار ہو۔

حصہ دوم
جنگ بندی کا معاہدہ:

فوری طور پر جنگ بند کر دینے کے متعلق حصہ اول میں شامل تجاویز کو قبول کر لینے کے ساتھ ہی دونوں حکومتیں حسب ذیل اصولوں کو جنگ بندی کے سمجھوتہ کہ بنیاد کے طور پر تسلیم کرتی ہیں، جس کی تفصیلات ان کے نمائندوں اور کمیشن کے درمیان بات چیت کے ذریعے طے کی جائیں گی۔

(الف)

1۔ چونکہ ریاست جموں و کشمیر میں پاکستانی فوج کی موجودگی اس صورتحال میں نمایاں تبدیلی کے مترادف ہے جو سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی تھی اس لیے حکومت پاکستان ریاست سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے پر رضامند ہے۔

2۔ حکومت پاکستان اس امر کی پوری کوشش کرے گی کہ ریاست جموں و کشمیر سے قبائلی اور پاکستانی باشندے جو وہاں پر رہائش نہیں رکھتے ہیں اور لڑائی کی خاطر ریاست میں داخل ہوئے ہیں، ریاست سے واپس چلے جائیں۔

3۔ جس علاقہ سے پاکستانی فوج کی واپسی عمل میں آ جائے گی اس کا نظم و نسق قطعی فیصلہ تک مقامی حکام کے سپرد اور کمیشن کی نگرانی میں ہو گا۔

(ب)

1۔ جب کمیشن حکومت ہندوستان کو یہ اطلاع دے دے گا کہ قبائلی اور پاکستانی باشندے جن کا ذکر حصہ دوم، الف، 2 میں کیا گیا ہے، ریاست سے واپس چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ صورت حالات ختم ہو گئی ہے جسے حکومت ہندوستان نے سلامتی کونسل کے سامنے ریاست میں اپنی فوجوں کی موجودگی کی وجہ قرار دیا تھا اور یہ کہ ریاست جموں و کشمیر سے پاکستانی فوجوں کی واپسی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے، حکومت ہندوستان اپنی افواج کے بیشتر حصہ کا انخلاء ایسے مرحلوں میں، جو کمیشن کے ساتھ طے کر لیے جائیں، شروع کر دینے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہے۔

2۔ ریاست جموں و کشمیر میں صورت حالات کے قطعی فیصلہ کے متعلق شرائط کی منظوری تک حکومت ہندوستان جنگ بندی لائن کی حدود کے اندر اپنی افواج کی اتنی کم سے کم تعدا رکھے گا جو کمیشن کی رضامندی کے مطابق امن و امان بحال رکھنے میں مقامی حکام کی مدد کے لیے ضروری ہو گی۔ کمیشن جہاں مناسب سمجھے گا، مبصر متعین کرے گا۔

(ج)

1۔ دستخط ہو جانے کے جنگ بندی کے سمجھوتہ کا پورا متن یا اس کے اصولوں پر مشتمل ایک اعلامیہ، جیسا کہ دونوں حکومتوں اور کمیشن کے درمیان طے ہو جائے گا، عام اطلاع کے لیے شائع کر دیا جائے گا۔

(حصہ سوم)
حکومت ہندوستان اور حکومت پاکستان اپنی اس خواہش کا اعادہ کرتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق متعین کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے جنگی سمجھوتہ کو قبول کر لینے کے بعد دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتی ہیں تا کہ ایسی منصفانہ شرائط طے کی جا سکیں جن کے تحت آزادانہ رائے کا اظہار یقینی ہو۔
اس قرارداد کی روشنی میں ریاست جموں کشمیر کی آئندہ حیثیت عوام کی خواہشات کے مطابق تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس پر پاکستان اور ہندوستان دونوں کے دستخط ہیں۔ یہی وہ پہلی قرارداد ہے جو ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر مشروط حق خود ارادیت دیتی ہے۔ پہلی باقاعدہ قرارداد کے بعد 5جنوری1949کو دوسری قرار داد منظور ہوئی

قرارداد 05 جنوری 1949:

اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان

حکومت ہندوستان اور پاکستان کی طرف سے ان کے خطوط مورخہ 23؍ دسمبر اور 25؍ دسمبر 1948 کے ذریعے حسب ذیل اصولوں کو جنہیں کمیشن کی قرارداد 13 اگست 1948 میں اضافہ کی حیثیت حاصل ہے، تسلیم کرنے کے بعد:

1۔ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا فیصلہ غیر جانبدار اور منصفانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ کے مطابق کیا جائے گا۔

2۔ رائے شماری کا انعقاد اس وقت ہو گا جب کمیشن نے یہ معلوم کر لیا کہ التوائے جنگ اور جنگ بندی کے انتظامات جن کا ذکر کمیشن کی قرارداد مورخہ 13؍ اگست 1948 کے حصہ اول اور دوئم میں کیا گیا ہے پر عمل ہو گیا ہے اور رائے شماری کے لیے انتظامات مکمل ہو گئے ہیں۔

(الف) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کمیشن کی رضامندی سے ناظم رائے شماری کو نامزد کریں گے جو ایک اعلیٰ بین الاقوامی شخصیت ہو گی اور جسے عام اعتماد حاصل ہو گا۔ اسے ریاست جموں و کشمیر کی حکومت رسمی طور پر اس کے عہدہ پر مقرر کرے گی۔

(ب) ناظم رائے شماری ریاست جموں و کشمیر سے وہ اختیارات حاصل کرے گا جو وہ رائے شماری کے انتظام و اہتمام اور اس کے غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انعقاد کے لیے ضروری تصور کرے گا۔

(ج) ناظم رائے شماری کو اختیار حاصل ہو گا کہ مبصرین کی مدد کے لیے جس قدر سٹاف کی ضرورت ہو اسے مقرر کر سکے۔

4۔ (الف) کمیشن کی قرارداد مورخہ 13؍ اگست کے حصہ اول اور دوئم پر عملدرآمد کے بعد اور جب کمیشن کو یہ اطمینان ہو جائے کہ ریاست میں پر امن حالات بحال ہو گئے ہیں تو کمیشن اور ناظم رائے شماری حکومت ہندوستان کے مشورہ سے ہندوستان اور ریاست کی مسلح افواج کو ہٹانے کا آخری فیصلہ کریں گے اور یہ فیصلہ ریاست کے تحفظ اور رائے شماری کی آزادی کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔

(ب) جہاں تک اس علاقہ کا تعلق ہے، جس کا ذکر قرارداد مورخہ 13 اگست کے حصہ دوئم، الف میں کیا گیا ہے ناظم رائے شماری اور کمیشن اس علاقہ میں مسلح افواج کے متعلق آخری فیصلہ مقامی حکام کے مشورہ سے کریں گے۔

5۔ ریاست کے اندر تمام سول اور فوجی حکام اور تمام بڑے بڑے سیاسی عناصر کو رائے شماری کی تیاری اور انعقاد میں ناظم رائے شماری کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔

(الف) ریاست کے تمام باشندوں کو جو بد امنی کی وجہ سے ریاست سے چلے گئے تھے واپس آ جانے کی دعوت دی جائے گی اور انہیں واپس آ کر شہریوں کی حیثیت سے تمام حقوق کے استعمال کا حق حاصل ہو گا۔ ان کی واپسی میں مدد دینے کے لیے وہ کمیشن مقرر کیے جائیں گے، جن میں سے ایک ہندوستان کے نمائندوں پر اور دوسرا پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ہو گا۔ یہ کمیشن ناظم رائے شماری کی ہدایات کے مطابق کام کریں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور ریاست جموں و کشمیر کے اندر تمام حکام اس دفعہ کو عملی جامہ پہنانے میں ناظم رائے شماری کے ساتھ تعاون کریں گے۔

(ب) تمام ایسے افراد جو ریاست کے شہریوں کے علاوہ کسی دوسرے مقصد سے ریاست میں داخل ہوئے ہیں، انہیں ریاست سے واپس جانا ہو گا۔

7۔ ریاست جموں و کشمیر کے اندر تمام حکام یہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ ناظم رائے شماری کے تعاون سے وہ اس امر کے پابند ہوں گے کہ:-
(الف) رائے شماری کے دوران ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا نہیں جائے گا نہ ان پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ اور نہ ہی انہیں رشوت دی جائے گی۔
(ب) ریاست بھر میں جائز سیاسی سرگرمی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ ریاست کے باشندے بلا لحاظ علاقہ، ذات یا جماعت اپنے خیالات کے اظہار اور ریاست پریس، تقریر اور اجتماع اور سفر کی آزادی ہو گی، جس میں ریاست میں قانونی طور پر داخل ہونے اور باہر جانے کی آزادی بھی شامل ہے۔

(ج) تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔

(د) ریاست کے تمام حصوں میں اقلیتوں کی پوری حفاظت کی جائے گی۔

(ہ) کسی کو عتاب کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

8۔ ناظم رائے شماری کو اگر بعض مسائل میں امداد کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ کمیشن سے رجوع کرے گا اور کمیشن اگر مناسب سمجھے گا تو وہ اپنی طرف سے ناظم رائے شماری کو ایسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا اختیار دے گا جو اسے سونپی گئی ہیں۔

9۔ رائے شماری کے مکمل ہو جانے پر ناظم رائے شماری اس کے نتیجہ سے کمیشن اور ریاست جموں و کشمیر مطلع کرے گا۔ اس کے بعد
کمیشن سلامتی کونسل کے سامنے یہ تصدیق کرے گا کہ رائے شماری منصفانہ اور آزادانہ ہوئی ہے یا نہیں۔

10۔ جنگ بندی کے سمجھوتہ پر دستخط کے بعد کمیشن کی قرارداد مورخہ 13؍ اگست 1948 کے حصہ سوئم میں تفویض کردہ صلاح و مشورہ کے مطابق متذکرہ بالا تجاویز کی مزید وضاحت کر لی جائے گی۔ ناظم رائے شماری کو اس بات چیت میں برابر شریک رکھا جائے گا۔

کمیشن حکومت ہندوستان اور پاکستان سے سفارش کرتا ہے کہ کمیشن کی 13؍ اگست 1948 کی قرارداد کے مطابق جو سمجھوتہ ہو چکا ہے، اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ یکم جنوری 1949 کی رات کو آدھی رات سے ایک منٹ پہلے جنگ بند کر دینے کا حکم جاری کرنے کی فوری کارروائی کریں۔

کمیشن فیصلہ کرتا ہے کہ 13؍ اگست 1948 کی قرارداد اور متذکرہ بالا اصولوں میں اسے جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے وہ مستقبل قریب میں بر صغیر میں واپس چلا جائے۔

05؍ جنوری 1949 کی قرارداد تنازعۂ کشمیر کا بھیانک موڑ تھا۔ جب ریاست جموں کشمیر کے لوگوں سے حقیقی حق خود ارادیت چھین کر انہیںمشروط حق خود ارادیت میں دھکیل دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عالمی برادری، امت مسلمہ، پاکستان اور ہندوستان اور ان کے زیر انتظام ریاست کے منقسم حصوں میں قائم حکومتیں (لوکل اتھارٹیز) حق خود ارادیت کی تعریف الحاق ہندوستان یا الحاق پاکستان کر رہی ہیں۔یہ وہی قرارداد ہے جس میں مسئلہ تو ہمارا ہے، مگر ہم فریق نہیں۔

ریاست جموں کشمیر بنیادی فریق ہونے کے باوجود تنازعہ کشمیر میں فریق کیوں نہیں؟

بلحاظ رقبہ اور آبادی 100 سے زائد سے ممالک سے بڑی مملکت ریاست جموں و کشمیر کے مسئلہ کے حل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ریاست کے باشندے بحیثیت قوم اس میں فریق نہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ سوال کشمیریوں قومی آزادی کا ہے اور وہ اس کے فریق نہیں۔ اس کے لیے  اُن حالات کو دیکھنا ہو گا، جب یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا۔

بھارت یکم جنوری 1948 کو سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر لے کر گیا۔ اس لحاظ سے بھارت کی حیثیت مدعی کی ہو گئی، کیونکہ بھارت کی درخواست تھی کہ مہاراجا کشمیر نے بھارت سے الحاق کیا ہے، اس لیے کشمیر اس کا حصہ ہے۔ پاکستان نے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، اس لیے اس کی داد رسی کی جائے۔ اس طرح پاکستان مدعا علیہ ٹھہرا۔

جھگڑا مدعی اور مدعا علیہ کا ہوا۔ اصل فریق کی اس معاملے یاجگہ تک رسائی نہ ہو تو کوئی بھی پنچایت، جرگہ معروضی حالات کے مطابق فیصلہ یا کوئی کردار ادا کرتا ہے۔یہی کچھ کشمیر کے معاملے میں ہوا مسئلہ ایک قوم کا تھا لیکن اسے تقسیم برصغیر کے تناظر میں دیکھا گیا کشمیری قیادت ہندوستان اور پاکستان کی نمائندگی کرتی رہی اپنا مقدمہ پیش نہ کر سکی۔یہ سب کیسے ہوا آئیے دیکھتے ہیں۔

سلامتی کونسل کے 229 ویں اجلاس میں 17؍ جنوری 1948 کو بلجیم کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد نمبر S/651 منظور ہوئی، جس میں کہا گیا کہ:

’’حکومت بھارت اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کے بیانات سنے گئے۔ صورت حال کی سنگینی کا احساس کیا گیا۔ سلامتی کونسل کے صدر کے فریقین (بھارت اور پاکستان) کے نام تار اور ان کے جوابات پر غور کیا گیا۔ فریقین سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی کریں گے۔‘‘

بلجیم کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد نمبر 229 ہی پہلی وجہ بنی جب عالمی برادری نے ایک قوم کے تنازعہ کو دو فریقین کی درمیان تنازعہ سمجھا۔ چونکہ ریاست جموں کشمیر کا کوئی نمائندہ اپنی قوم کی نمائندگی کے لیے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود نہیں تھا، اس لیے ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ دو قوموں کے درمیان تنازعہ بن گیا اور جس قوم کی آزادی کا سوال تھا وہ قوم پس منظر میں چلی گئی۔ اگر اس وقت آزاد کشمیر کی حکومت کا کوئی نمائندہ اپنے وطن کی نمائندگی کرتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔

20؍ جنوری  1948کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر S/654 میں اس مسئلہ کو حل کرنے میں مدد دینے کے لیے ایک سہ رکنی کمیشن کا قیام عمل میں لایا، جس کا نام کمیشن برائے بھارت و پاکستان (UNCIP) رکھا گیا۔ اس کمیشن کے تین ممبران میں سے ایک بھارت، دوسرا پاکستان اور تیسرا متذکرہ دو ممبران کو خود نامزد کرنا تھا۔ اگر اس وقت کمیشن برائے مسئلہ کشمیر مقرر ہو جاتا تو حق خود ارادیت کو الحاق سے مشروط نہ کیا جاتا تو آج ہم آزاد ہوتے، اگر آزاد نہ بھی ہوتے تو اپنا مقدمہ خود لڑ رہے ہوتے۔ ہندوستانی اور پاکستانی حکمران ہمیں بھیڑ بکریاں سمجھ کر ہمارے فیصلے نہ کرتے۔

ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی نیم خود مختاری پاکستان سے مہاراجا ہری سنگھ کے معاہدہ جاریہ میں موجود تھی۔
ہری سنگھ ہندو ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے کھڑا ہو گیا تھا۔ ویسے بھی مہاراجا کی شخصی حکمرانی کے خلاف جد و جہد جاری تھی۔ دو سال، 5 سال، 10 سال بعد بالآخر عوامی حکومت کو قائم ہو جانا تھا، جس کے پاکستان سے اچھے تعلقات ہوتے۔

اگر مہاراجا ہری سنگھ کا چہرہ پسند نہیں تھا، یا ہندو ہونے کی وجہ سے اس سے نفرت تھی تو سردار ابراہیم کی سربراہی میں بننے والی حکومت کے ذریعے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کر دیا جاتا۔ لیکن بد اعتمادی کا یہ عالم تھا سردار ابراہیم کو اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی نمائندگی نہیں کرنے دی گئی۔

20؍ جنوری 1948 کی قرارداد میں جب اچانک مسئلہ کشمیر کی ہیئت تبدیل کر کے اس کا نام اقوام متحدہ کا کمیشن برائے بھارت و پاکستان رکھا گیا تو بھارتی نمائندے نے اس پر احتجاج کیا۔ شاید اس احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ بھارت اس معاملہ میں پاکستان کو فریق کے بجائے جارح کے طور پر تسلیم کروانا چاہتا تھا۔

روسی نمائندے نے بھی کونسل کے صدر کے اس اختیار کو چیلنج کیا کہ کونسل کے ایجنڈے پر موجود ایک مسئلہ پر کونسل میں بحث کیے بغیر ہی تبدیلی کر دی گئی۔

ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی خوشحالی کا واحد راستہ نظریہ مقبول بٹ ہے

یوں 1947سے لے کر آج تک ریاست جموں کشمیر کے لوگ تقسیم ہیں ہندوستان اور پاکستان کے لوگ تو آپس میں مل سکتے ہیں سیاست دانوں حکمرانو ں ،دانشوروں ،شاعروں ،کھلاڑیوں ،صحافیوں ،ثقافتی وفود ،کی آپس میں میل ملاقات ہوتی ہے لیکن ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے سخت ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے چند میٹر فاصلے پر موجود اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے کئی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے ،مسئلہ کشمیر کا حل رائے شماری سے مشروط ہے مگر رائے شماری کے لیے دونوں ممالک میں سے کوئی بھی تیار نہیں ۔اسطرح 70سال سے موجود یہ تنازعہ تینوں خطوں کے لوگوں کے دکھوں کا باعث بناہوا ہے ۔آج 2019میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یورپی تجارتی اجارہ داری کامقابلہ کرنے، جنوبی ایشیاء کے امن ہندوستان پاکستان اور ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کی خوشحالی کا واحد راستہ نظریہ مقبول بٹ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے