صاف پانی اسکینڈل کا ملزم کون؟؟

شہباز شریف حکومت کی 56کمپنیوں میں مبینہ کرپشن پر انتخابات سے قبل بڑا شور مچایا گیا۔ ’’اربوں کھا گئے، کھربوں لٹ گئے‘‘ کے الزمات لگائے گئے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی سوموٹو لیا جبکہ نیب نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ صاف پانی اسکیم کے بارے میں کہا گیا کہ اربوں کی کرپشن ہوئی۔ انتخابات سے قبل ہی چوہدری نثار کے مقابل الیکشن لڑنے والے (ن) لیگی امیدوار انجینئر قمرالاسلام کو نیب نے گرفتار بھی کر لیا۔ اس پروجیکٹ سے متعلقہ کچھ افسران کو بھی گرفتار کیا گیا۔ الیکشن کے بعد شہباز شریف کو بھی صاف پانی کیس میں نیب نے طلب کیا لیکن آشیانہ کیس میں گرفتار کر لیا۔ اور یوں چور ڈاکو کے نعرے مزید بلند ہونے لگے۔ اس وقت پاکستانی سیاست بھی انہی کیسوں کی وجہ سے قید نیب کے ملزم شہباز شریف کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین بننے کی وجہ سے انتہائی تلخ ہو چکی ہے اور تحریک انصاف کی حکومت شہباز شریف پر پی اے سی سے استعفیٰ دینے کے لیے دبائو بڑھا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا کہنا ہے کہ کوئی ’’چور ڈاکو‘‘ جیل سے آ کر کیسے پی اے سی کے اجلاس کی سربراہی کر سکتا ہے۔ (ن) لیگ اور اپوزیشن جماعتیں کسی طور پر شہباز شریف کو پی اے سی کی سربراہی سے ہٹانے کے لیے تیار نہیں۔ یہ تلخی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی دوران گزشتہ ہفتے لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے صاف پانی کیس میں قمر الاسلام اور دوسرے ملزموں کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا وہ احتساب کے اس عمل کو غیر شفاف ثابت کرتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے صاف پانی اسکینڈل (جس میں نیب کے مطابق اربوں کھائے گئے) سے متعلق اپنے فیصلے میں لکھا کہ بادی نظر میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ نیب نے یہ کیس بدنیتی سے بنایا۔ فیصلے کے مطابق بہاولپور ریجن میں فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لیے ملزمان بشمول قمر الاسلام نے جو ٹھیکہ دیا تھا اس میں قواعد کی خلاف ورزی، کرپشن، کک بیکس یا رشوت لینے کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ ہائیکورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ درخواست گزار ملزمان کے خلاف ایسا کوئی الزام نہیں تھا کہ انہوں نے کوئی کمیشن، رشوت یا کنٹریکٹ دیتے ہوئے کوئی غیر قانونی عمل سرانجام دیا ہو۔ فیصلے کے مطابق ریکارڈ پر ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اُنہیں پھوٹی کوڑی بھی دی گئی ہو یا ان کے کسی عزیز و اقارب کے اکائونٹس میں منتقل کی گئی ہو۔ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ ہمیں کوئی غیر قانونی اقدام یا قانون کی خلاف ورزی نہیں ملی۔ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ ملزمان پر اصل الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے صاف پانی ٹھیکے کی بولی 1اعشاریہ 14ارب روپے سے کم کر کے 98کروڑ 90لاکھ روپے کر دی۔ یعنی فیصلہ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ کہ ٹھیکہ لینے والی کمپنی نے سب سے کم بولی دی، جسے نہ صرف قواعد کے مطابق ٹھیکہ دیا گیا بلکہ کم بولی کے باوجود اُس سے ٹھیکے کی رقم بھی کم کروائی گئی۔ نیب نے اس کیس میں یہ بھی الزام لگایا کہ اس پروجیکٹ کے تحت فلٹریشن پلانٹس غیر قانونی طریقے سے تحصیل دنیاپور میں بھی لگائے گئے جس کا پروجیکٹ کے تحت منظور شدہ تحصیلوں میں ذکر نہیں تھا لیکن عدالت کے مطابق نیب نے یہ بات تسلیم کی کہ تحصیل دنیاپور کا تعلق لودھراں ضلع سے ہے، جس کا صاف پانی پروجیکٹ میں ذکر موجود ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ عدالت نیب کے اس الزام کہ فلٹریشن پلانٹس کی قیمت مزید کم کیوں نہ کی گئی، کو سمجھنے سے قاصر ہے جبکہ پلانٹس کی کوالٹی پر کوئی کمپرومائز کیا گیا اور نہ ہی عدالت کے سامنے کوئی ایسی رپورٹ پیش کی گئی کہ ان پلانٹس سے کم کوالٹی یا ناکافی پانی حاصل ہو رہا ہے۔ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو پڑھ کر اگر ایک طرف صاف پانی اسکینڈل کے ملزمان کے خلاف بنائے گئے کیس کی قلعی کھلتی ہے تو دوسری طرف اس عدالتی فیصلے کے تناظر میں نیب کی کارکردگی پر سوالات سامنے آتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ نیب چیئرمین کیا متعلقہ نیب افسران کے خلاف کوئی ایکشن لیتے ہیں کہ کیوں اور کس کے کہنے پر اس طرح کے جھوٹے مقدمات قائم کر کے سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتا اور اُنہیں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے؟ نیب چیئرمین کی طرف سے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیاجانا چاہیے تاکہ اُن کی ذات پر سوال نہ اٹھ سکیں۔ صاف پانی کا یہ کیس سیاستدانوں کے لیے بھی ایک یاددہانی کا موقع ہے کہ کس طرح اُن کو کرپشن کے جھوٹے الزامات لگا لگا کر داغدار کیا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ سیاستدان ان واقعات سے کچھ سیکھتے ہیں یا کسی دوسرے کے کھیل کا حصہ ہی بنے رہتے ہیں جس کا نشانہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ صرف سیاستدان ہی ہیں، کبھی ایک اور کبھی دوسرا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے