میڈیا کے مسائل: بلوچستان میں صحافیوں کا مالیاتی عدم تحفظ

موجودہ حالات میں بلوچستان کے صحافی کافی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ صحافت کا نام و نشان نہیں ہے۔ صحافیوں کی برادری کو آزادی رائے کا حق حاصل نہیں ہے۔

کچھ عرصہ پہلے، ایک صحافی کو سکیورٹی ایجنسیوں یا کسی عسکریت پسند گروہ کے خلاف لکھنے پر دھمکیاں موصول ہوتی تھیں۔ تاہم اب معاملات کافی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب میڈیا تنظیموں اور ان کے مالکان پر ان سکیورٹی ایجنسیوں اور عسکریت پسند گروہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی رپورٹ یا خبر شائع یا نشر نا کی جائے۔ اس کے بعد مالکان رپورٹر تک یہ بات پہنچاتے ہیں۔ اس وجہ سے رپورٹر حساس معاملات پر رپورٹنگ کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس کی بدولت سچی اور تحقیقاتی صحافت کو فروغ نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ اگر کوئی صحافی کسی حساس معاملے پر رپورٹ بنا بھی لے تو اس کے باوجود اس کے چینل یا اخبار والے وہ رپورٹ نشر یا شائع نہیں کریں گے۔ نامعلوم افراد یا بلوچستان میں بغاوت پر لکھنے پر کسی صحافی کی جرت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ صحافیوں کو مختلف چینلز سے دھمکیاں موصول ہوتی ہیں جن میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک صحافی کسی سیاسی جماعت کے جلسے کی کوریج کے لیے گیا ہے اور اس نے جلسے میں موجود کارکنان کی تعداد اپنی رپورٹ میں کم ظاہر کی ہے تو وہ پارٹی اس صحافی کے خلاف ہو جائے گی – حالانکہ کہ صحافی نے صحیح تعداد اپنی رپورٹ میں درج کی ہو۔ اسی طرح، مذہبی جماعتیں بھی صحافیوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں موجود صحافی مذہب کے بارے میں لکھنے سے گریز کرتے ہیں۔

زبانی دھمکیوں کے علاوہ صحافیوں کو مالیاتی طور پر بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ حال ہی میں مختلف میڈیا تنظیموں کے لیے کام کرنے والے کیمرامین، این ایل ای اور ڈی ایس این جی انجنیئرز کو اپنی نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ ان کا تعلق جیو نیوز، ایکس پریس نیوز، 24 نیوز، 92 نیوز، اب تک نیوز اور جنگ گروپ شامل ہیں۔ اس کی وجہ ان نیشنل میڈیا گروپ پر مالیاتی دباؤ ہے۔ اس کے باوجود، بلوچستان میں میڈیا کارکنان کو نوکریوں سے نکالے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اسی طرح کافی میڈیا کی تنظیمیں اپنے اضلاع کے صحافیوں کو تنخواہیں نہیں دیتی۔ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان میں کافی صحافی مفت میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے نیوز چینلز ان کے سفر اور رہائش کا خرچا بھی نہیں اٹھاتی۔ یہ صحافی، بغیر تنخواہ کے صوبے کے دیہی علاقوں سے کام کرتے ہیں۔ ان کو روز رپورٹنگ کے لیے دور دراز علاقوں محں جانا پڑتا ہے۔ ان کے پاس رپورٹنگ کے آلات بھی نہیں ہیں۔ صرف ایک مائیک، کیمرا اور لوگو ان کے حوالے کیا جاتا ہے – اور وہ بھی ہنگامی صورتحال میں استعمال کے لیے جن میں دہشت گردی کے واقعات یا پھر کسی اہم شخصیت کی آمد۔ آج کل کے مالیاتی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کافی میڈیا کارکنان کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں۔ کافی صحافیوں کے لیے کمائی کا ایک ہی ذریعہ ہے: صحافت۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچستان کی حکومت نے پریس کی صنعت کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ پچھلے تین سالوں سے اخبارات اور اشتہارات پر پابندی عائد ہے۔ اشتہارات کے بلوں کی ادائیگی بھی پچھلے آٹھ ماہ سے رکی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے اخبارات میں بھی ایک طوفان برپا ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔

دوسری طرف، کام کرنے والے صحافیوں کی اپنی شکایتیں ہیں کہ ان کی میڈیا تنظیمیں بلوچستان کے حالات پر پردہ ڈال رہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحافی دل برداشتہ ہوگئے ہیں۔ زیادہ پر میڈیا تنظیموں کے دفاتر کراچی، لاہور یا پھر اسلام آباد میں ہیں۔ بلوچستان پر کوئی بھی نظر ڈالے کو تیار نہیں ہے۔ وہ بلوچستان میں صحافیوں کو پیش آنی والی صورتحال سے واقف ہونے کے لیے نہیں آتے ہیں۔ بیشتر صحافیوں کی تنظیموں نے صحافیوں کے موجودہ حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج اور دھرنے بھی دئیے ہیں۔ تاہم ان کے باوجود مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق، پچھلی دہائی میں چالیس صحافیوں کا بلوچستان میں قتل ہوا ہے۔ بد قسمتی سے ان میں سے کسی کے لواحقین کو انصاف ابھی تک نہیں ملا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ حکومت نے بھی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

ان مالیاتی مسائل، دھمکیوں اور نوکری کے خطرات سے بچنے کے لیے حکومت کو اخبارات اور نیوز چینلز کو اشتہارات دینے چاہیں۔ اس کے ساتھ، اگر صحافی کی برادری اکٹھی ہو جائے اور میڈیا کے مالکان پر دباؤ ڈالے تو اس صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے