قومی خزانہ اور اٹھارویں ترمیم

آجکل حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان آئین میں اٹھارویں ترمیم کو لے کر ایک کشمکش جاری ہے۔ اپوزیشن کے مطابق تحریک انصاف اس ترمیم کو بدلنا چاہتی ہے جس کے لیے ملک میں اس کے خلاف منفی رائے عامہ ترتیب دی جا رہی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ مخلوط حکومت آئین میںکوئی ترمیم کر ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہی نہیں جو اس وقت کی حکومت کے پاس تھی۔ اٹھارویں ترمیم میں جہاں صدر کے اختیارات کو کم کیا گیا وہاں انتظامی اور خزانے کی تقسیم میں صوبوں کو خودمختار بنایا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اہم ترمیم کی وجہ سے ملکی سیاست پر کیا اثر ہوا تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وزیراعظم کے اختیارات میں اضافہ ہوا، اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر کہ تحلیل ہوئیں جبکہ صدر کے اختیارات بالکل ختم ہو گئے۔ صوبے بہت حد تک خود مختار ہوئے جبکہ خزانے کی تقسیم میں صوبوں کا ایک بڑا اختیار سامنے آیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی دور میں قومی خزانے کو بے دریغ خالی کیا گیا، غیر ترقیاتی اخراجات ہوئے اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا فارمولا مسلسل اختلافات کا شکار ہوتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔حال ہی میں ایک دفعہ پھر قومی محاصل کی صوبوں میں تقسیم کا فارمولاطے کرنے کیلیے قائم نویں قومی مالیاتی کمیشن کے پہلے اجلاس میں وفاق اورصوبوں کے درمیان این ایف سی کے نئے فارمولے پراختلافات کا انکشاف ہوا ہے۔ ہم ایک ترقی پزیر ملک ہیں جہاں بجٹ میں اخراجات کو آمدن کے ساتھ کنٹرول کیا جانا چاہیے تاکہ غیر ترقیاتی اخراجات پر پیسہ برباد کرنے کی بجائے وفاق کی مرضی اور صوبوں کی جائز ضرورت کے مطابق خزانے کا استعمال ہو۔

اٹھارویں ترمیم پر اگر روشنی ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اس ترمیم کی وجہ سے آئین میں بہت ساری اہم تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔آئین کے اہم آرٹیکلز میں کی گئی ترامیم کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ صدر کو وزیر اعظم کی مشاورت سے اسمبلی تحلیل ہونے یا اپنی مدت پوری کرنے پر عام انتخابات منعقد کروانے ہوں گے اور و ہی نگران کابینہ تعینات کریں گے۔ آرٹیکل 58(2) بی کے تحت کہا گیا ہے صدر کے پاس سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان تمام کنکرنٹ لسٹ ختم کی جانے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔ صوبائی گورنر اسی صوبے کا ہی رہائشی تعینات کیا جا سکتا ہے اور صوبائی اسمبلی کا سپیکر گورنر کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر ہوگا۔ صوبائی حکومت وفاق یا کسی اہلکار کو اپنا اختیار دیتی ہے تو اس کی اسے صوبائی اسمبلی سے توثیق کروانا لازمی ہوگی۔ وزیر اعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ارکان جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین شامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت اس صوبے سے مشاورت کی پابند ہوگی جہاں آبی ذخیرہ تعمیر کیا جا رہا ہوگا۔ صوبوں کا حصہ ترمیم سے پہلے کہ این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا جبکہ صوبوں کو قومی مالیاتی کمشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ تیل و گیس جیسے قدرتی وسائل کا اختیار صوبے اور وفاق کے درمیان مشترکہ کر دیا گیا۔ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جائے گی۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ ترمیم کی ر ±و سے لوکل گورنمنٹس کو مزید مضبوط، خود مختار اور فعال بنایا جائے گا تا کہ ریاستی تشخص کو مزید بہتر ڈھنگ سے مضبوط کیا جا سکے۔

اگر دیکھا جائے تو سیاسی و انتظامی طور پر صوبوں کی خودمختاری میں اضافے سے امور حکومت بہتر ہوئے ہیں اور عام آدمی کی سیاست و انتظامی ڈھانچے تک رسائی یقینی ہو سکی۔ مگر دوسری طرف خزانے پر کنٹرول کی وجہ سے صوبے اکژ اپنے بجٹ میں ایسے اخراجات کو اہمیت دیتے ہیں کہ جس سے ملکی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر بجٹ کا استعمال کیا ہی نہیں جاتا اور سال کے اختتام پر یہ بجٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ خزانے کہ تقسیم پر ہر این ایف سی ایوارڈ، ڈیم کی تعمیر و پانی کی تقسیم پر اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ موجودہ دورہ حکومت میں بھی ین ایف سی ایوارڈ کے موقع پر اختلافات سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں اس حوالے سے اسد عمر کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں وفاقی سیکریٹری خزانہ عارف خان نے مالیاتی صورتحال پر بریفنگ دی جبکہ صوبوں کی جانب سے بھی اپنے اپنے صوبے کی مالیاتی صورتحال کے بارے میں تفصیلی برفنگ دی گئی۔ اجلاس میں ملک کی ترقی اورعوامی فلاح و بہبودکے لیے وفاق اور صوبوںکے وسائل بڑھانے کی ضرورت پر زرو دیاگیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ این ایف سی اجلاس میں وفاق اور صوبوں کے درمیان این ایف سی کے نئے فارمولے پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور اجلاس میں صوبوں نے اشیا پر سیلز ٹیکس وصولی کا اختیار مانگ لیا ہے جبکہ فاٹا کو تین فیصد حصہ دینے کے فیصلے کی بھی مخالفت کردی ہے۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی سے سندھ کو 104 ارب روپے کم فراہم کیے گئے، فاٹاکا سارا بوجھ صوبوں پر نہیں ڈالاجا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فاٹا وفاق کی ذمہ داری ہے جبکہ فاٹاکے پی کے میں ضم ہوچکا ہے، کے پی کے اور وفاق کوہی اس کو ڈیل کرنا پڑیگا۔ انھوں نے مزیدکہا کہ فاٹا کے سلسلے میں صوبوں سے مزید وسائل کی توقع نہیں کرنی چاہئیے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھاکہ صوبوںکوآئی ایم ایف سے مذاکرات میں شامل کیا جائیگا جب تک ٹیکس آمدن نہیں بڑھتی وفاق اورصوبوںکا حصہ نہیں بڑھ سکتا ہے۔

این ایف سی اجلاس میں وزیر خزانہ نے اٹھارویں ترمیم پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ18ویں ترمیم کو تسلیم کرتے ہیں۔ ا ٹھارویں ترمیم میں صوبوں اور این ایف سی کی درست سمت میں قدم ہے اوراٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی میں صوبوںکے حصے کی آئینی گارنٹی ہے اس کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اجلاس میں صوبوں نے ایف بی آرکی کارکردگی پرتحفظات کا اظہارکیا اورایف بی آر پالیسی میں اپنا اختیار مانگ لیا۔ اجلاس میں فاٹا کے امورسے متعلق تجاویزتیارکرنے کے لئے چھ ذیلی گروپ تشکیل دیدیئے گئے ہیں یہ گروپ فاٹا کے امور، کاروبار کو آسان بنانے، بڑے معاشی معاملات اور وسائل کی افقی اورعمودی تقسیم کے حوالے سے تجاویز پیش کریںگے۔ اجلاس میں نئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے تحت قومی وسائل کی بہتر انداز میں تقسیم کے حوالے سے سفارشات کا جائزہ لیاگیا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ و این ایف سی میں پنجاب کے نمائندے ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایاکہ اجلاس میں ملک کے اخراجات اور آمدن پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔آنے والے سالوں میں ریونیو میں اضافے کے زیادہ امکانات ہیں اس سے صوبوں اور وفاق کوفائدہ پہنچے گا۔ سندھ کے وزیراعلی کے برعکس ان کا کہنا تھا کہ فاٹا پورے پاکستان کی ذمہ داری ہے اورہمیں کہیں نہ کہیں سے فاٹا کی تعمیر نوکرنا ہوگی۔ فاٹا وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے