ارشاد رانجھانی قتل: یوسی چیئرمین رحیم شاہ سمیت پولیس افسران کیخلاف مقدمہ درج

کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں مبینہ ڈکیت ارشاد احمد رانجھانی کی ہلاکت پر یونین کونسل (یوسی) چیئرمین رحیم شاہ، ڈی ایس پی شاہ لطیف ٹاؤن، قائم مقام ایس ایچ او اور گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

تحقیقات کرنے والی پولیس ٹیم کی سفارش پر یوسی چیئرمین رحیم شاہ کو پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق مقتول ارشاد رانجھانی کے قتل کا مقدمہ شاہ لطیف تھانے میں درج کرلیا گیا ہے جس میں ڈی ایس پی شاہ لطیف ٹاؤن، قائم مقام ایس ایچ او، یوسی چیئرمین رحیم شاہ اور ان کے نامعلوم گارڈ کو نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی اور قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

قبل ازیں ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی نے آج پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ واقعہ ڈکیتی کا ہی ہے، یوسی چیئرمین رحیم شاہ بینک سے رقم لے کر نکلے تو نرسری سے ان کا تعاقب کیا گیا اور بھینس کالونی کے علاقے میں گاڑی روک کر اسلحہ کے زور پر انہیں لوٹنے کی کوشش کی گئی۔

ڈی آئی جی عامر فاروقی کے مطابق جائے وقوع سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے جبکہ پولیس نے غفلت برتنے پر سب انسپکٹر کو معطل کردیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یوسی چیئرمین اور مقتول ارشاد دونوں پر کیسز ہیں، تاہم ارشاد رانجھانی کے اہلخانہ کے کہنے پر دوسرا مقدمہ درج کریں گے اور پھر فیصلہ عدالت کرے گی۔

ارشاد رانجھانی قتل— کب کیا ہوا؟
واضح رہے کہ ارشاد رانجھانی کو 6 فروری کو بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین رحیم شاہ نے ڈاکو قرار دیتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ واقعے کے وقت ارشاد رانجھانی لوٹ مار میں مصروف تھا جبکہ اُس کا کرمنل ریکارڈ بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔

ارشاد رانجھانی کے لواحقین کے شدید احتجاج اور سوشل میڈیا پر معاملہ گرم ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کیس کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کو ایک خط لکھیں جس میں ارشاد رانجھانی کے قتل کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی درخواست کی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ انہیں ارشاد رانجھانی کا قاتل سلاخوں کے پیچھے چاہیے، کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

جس کے بعد محکمہ داخلہ سندھ نے رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ملیر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا جائے۔

خط کے متن کے مطابق واقعے سے متعلق تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کا حکم دیا جائے اور 30 دن میں انکوائری مکمل کرائی جائے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ قتل سمیت ابتدائی طبی امداد اور کارروائی میں تاخیر کے اسباب بھی معلوم کیے جائیں۔

جس کے بعد کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی، جس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایسٹ عامر فاروقی، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) غلام اظفر مہیسر اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن ملیر فرخ ملک شامل ہیں۔

گذشتہ روز تحقیقاتی کمیٹی نے جائے وقوع کا معائنہ کیا تھا، جس کے دوران متعلقہ ریکارڈ کا جائزہ اور ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور کا بیان لیا گیا۔

تحقیقاتی کمیٹی نے واقعے سے متعلق تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کلپس سمیت دیگر تکنیکی شواہد کا بھی بغور جائزہ لیا اور دادو میں موجود ارشاد رانجھانی کے لواحقین سے فون پر بات بھی کی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے