یادوں کے چراغ۔ ذکر دو زندہ دل بزرگوں کا

زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یادوں کا ایک قیمتی ذخیرہ ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ کبھی تنہا بیٹھے سوچوں میں گم ہوں تو اس ذخیرے میں موجود کچھ موتی کچھ ہیرے چمکنے دمکنے لگتے ہیں۔ ہنس مکھ چہرے یاد آئیں تو چہرے پہ خود بخود مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے جدھر نظر دوڑاتا ہوں بجھے ہوئے، غمگین اور نڈھال بزرگ نظر آتے ہیں جو اپنے آپ سے بیزار اور دوسروں سے کنارہ کش لگتے ہیں۔ یہ’’ بڈھے‘‘ مسجد میں ملیں ،سر راہے نظر آئیں یا کسی مارکیٹ میں ٹکرائیں ان کا کسی سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے نہ مسکرانے کو۔ اُن کو مسکرا کر دیکھیں تو وہ حیرت زدہ ہو کر نہایت سنجیدہ ہو جاتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ’’تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔ انہوں نے اپنی پیشانیوں پہ یہ اعلان سجا رکھا ہے کہ ’’مسکرانا منع ہے، زندہ دلی حرام ہے۔‘‘ کچھ ایسے بھی بزرگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جن کی قوت برداشت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور اُن کا جی چاہتا ہے ہر کسی سے الجھتے رہیں یا پھر نوک جھونک یا لڑائی کریں۔ میں نفسیاتی وجوہ یا شدید تنہائی یا خاندان کی بے رخی اور معاشرے کی سردمہری کی تہہ میں اترنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ ایک الگ موضوع ہے۔ میں تو موجودہ دور کے بزرگوں کو دیکھتا ہوں یا ان سے پالا پڑتا ہے تو پرانے زمانے کے کچھ ایسے بزرگ یاد آتے ہیں جو سفید بالوں کے باوجود ہنس مکھ، حاضر جواب اور بذلہ سنج تھے اور تیزی سے گزرتی زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھا تو ممتاز شاعر پروفیسر قیوم نظر سینئر پروفیسر تھے۔ وہ عمر میں شاید مجھ سے اڑھائی گنا بڑے تھے میں ان کا شاگرد نہیں تھا لیکن ان سے دوستی تھی اور وہ مجھے ہمیشہ پروفیسر کہہ کر بلاتے تھے۔ سفید بالوں کی بزرگی کے باوجود ان کے قہقہے سے کمرے کی کھڑکیاں کھڑکنے لگتی تھیں۔ آج بھی ان کا مسکراتا خوبصورت چہرہ میری آنکھوں میں جگمگا رہا ہے۔ درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد ہمارے پرنسپل تھے جو ’’پرنسپلی‘‘ کے باوجود طلبہ میں گھل مل جاتے، کبھی کبھی کوئی شرارتی فقرہ کہہ کر دھیرے سے مسکراتے اور شام کو کالج کی ادبی انجمنوں میں عام طور پر پائے جاتے۔ صوفی تبسم مشہور و معروف شاعر خاصا عرصہ پہلے ریٹائر ہو چکے تھے لیکن اکثر ہماری ادبی انجمنوں میں مہمانِ خصوصی یا صدرِ مجلس کی حیثیت سے شریک ہوتے۔ عام طور پر صوفی صاحب کے ساتھ ایک نازک اندام ساڑھی میں ملبوس اسمارٹ سی شاعرہ ہوتی تھی جس کے ہاتھوں میں صوفی صاحب کی مخملی کڑھائی والی تھیلی نظر آتی تھی۔ اس تھیلی میں الائچی اسپاری اور نہ جانے کیا کیا ہوتا تھا جس سے صوفی صاحب استفادہ کرتے رہتے تھے۔ صوفی صاحب کی اس پسندیدہ شاگرد کا نام کشور ناہید تھا۔

ایم اے کرنے کے فوراً بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار تعینات ہوا تو میرا پہلا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ ایک روز پہلا پریڈ پڑھا کر صبح سویرے کالج کینٹین میں چائے پینے آیا تو ویران کینٹین کے پروفیسرز حصے میں کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنے پرانے شاعر دوست اور سابق پروفیسر صوفی تبسم سے گپ شپ میں مصروف پایا۔ چائے کا آرڈر دے کر میں تھوڑے فاصلے پہ بیٹھ گیا لیکن میرے کان ان کی طرف تھے۔ باتوں باتوں میں صوفی صاحب نے کہا ’’او جیرے یار کیسا زمانہ آگیا ہے، بیٹی، بھانجی کے ساتھ بھی سڑک پر چلو تو لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نذیر فوراً بولے ’’یار صوفی ہمارے حسن ظن کی داد دو، اگر تمہارے ساتھ کوئی مشکوک عورت بھی ہو تو ہم اسے تمہاری بیٹی یا بھانجی ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ اس کے فوراً بعد میں نے ایک عجیب منظر دیکھا ، صوفی صاحب نے کہااوئے جیریا اور وہ مارنے کے لئے اٹھے۔ڈاکٹر نذیر لان کی طرف دوڑے جس کے ساتھ ان کا سرکاری گھر تھا اور صوفی صاحب پیچھے پیچھے۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال اور میں چائے بھول کر دو بوڑھوں کی دوڑ دیکھنے لگا۔ کچھ اس زمانے میں ہنسی اور قہقہے بھی بلا جواز وارد ہوتے رہتے تھے۔ شاید جوانی اسی کا نام ہے۔ میرے بزرگ دوست مشکور حسین یاد بھی گورنمنٹ کالج ہی میں پڑھاتے تھے۔ قدرت نے ان کے چہرے پر سلوٹوں کا جال بچھا دیا تھا۔ نہایت زندہ دل انسان تھے۔ کبھی کبھی کہتے ہاں بھائی قہقہے لگالو، میں تو زور سے ہنسوں تو لوگ سمجھتے ہیں رونے لگا ہوں۔

مجھے کالج کے ہوسٹل میں تقریباً پانچ برس رہنا پڑا۔ ایک ناول نگار نے علی گڑھ یونیورسٹی کے حوالے سے لکھے گئے ناول کا انتساب ان الفاظ سے کیا تھا’’ ان یتیم بچوں کے نام جن کے والدین بقید حیات ہیں ۔‘‘چنانچہ میرا شمار بھی انہی طلبہ میں ہوتا تھا۔ ہوسٹل کا سب سے اہم فنکشن سالانہ ڈنر ہوتا تھا جس میں رنگارنگ انعامات دیے جاتے تھے ۔ایک نام پر سب سے بلند آہنگ قہقہہ پھوٹتا تھا اور وہ تھا ’’بریڈمین آف دی ایئر‘‘یعنی سب سے بڑا روٹی خور یعنی اناج کا سب سے بڑا دشمن۔ ایک سالانہ ڈنر پر صوفی تبسم صاحب مہمانِ اعلیٰ تھے۔ وہ کالج اور ہوسٹل کے دیرینہ رازوں سے اچھی طرح آگاہ تھے چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر میں ایک ایسا فقرہ کہا جسے سن کر ہم لوٹ پوٹ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کھانا کھا کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ابھی تک ہوسٹل کا ہیڈ باورچی محمددین ہی ہے۔ اس کے ہاتھ کے ذائقے کی خوبی یہ ہے کہ آپ پلائوکھائیں یازردہ، گوشت کھائیں یا دال ذائقہ ایک سا ہی ہوتا ہے ۔سالانہ ڈنر کے بعد مجلس مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے صوفی صاحب نے اپنا کلام سنایا جس کا ایک شعر مجھے اب تک یاد ہے

شمع کو ہر شام مل جاتی ہے تازہ زندگی
ہم سمجھتے ہیں کہ مر جاتی ہے پروانے کے ساتھ

میں ابھی طالب علم ہی تھا کہ ڈاکٹر نذیر احمد ریٹائر ہو گئے۔ اُن سے آخری ملاقات نہایت دلچسپ تھی اور ان کی زندہ دلی کی یاد دلاتی ہے۔ ایک شام میں مال روڈ (شاہراہ قائد اعظم) پر اسکوٹر دوڑاتا آ رہا تھا تو فٹ پاتھ پہ ڈاکٹر صاحب آتے دکھائی دیے۔ اسکوٹر روک کر سلام عرض کیا اور جھجکتے جھجکتے پوچھا ’’سر! میں آپ کو گھر چھوڑ آئوں؟‘‘ وہ بلاتکلف میرے پیچھے بیٹھ گئے۔ گھر پہنچے تو انہوں نے اصرار کیا کہ چائے پی کر جائو۔ ان کا پرانی طرز کا معمولی سا گھر تھا جس کی بیٹھک کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ بیٹھک کا دروازہ ایک ملازمہ نے کھولا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے چائے لانے کو کہا۔ وہ چائے لے کر آئی تو اس نے ایک چٹ ڈاکٹر صاحب کو تھمائی کہ یہ بیگم صاحبہ نے دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب چٹ پڑھ کر مسکرائے۔ لکھا تھا تھوڑی دیر پہلے ایک خاتون آئی تھی، آپ سے ملاقات کی مشتاق تھی، دوبارہ آنے کا کہہ گئی ہے، اُس کا انتظار کر لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے میز سے بال پوائنٹ اٹھایا اور بیگم صاحبہ کے پیغام کے نیچے لکھا ’’کیا وہ خوبصورت بھی تھی؟‘‘ میں نے اُن کا فقرہ پڑھا تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ زندہ دل ڈاکٹر نذیر احمد ہی ایسا فقرہ لکھ سکتے تھے ورنہ خاوندوں میں اتنی ہمت اور جرأت کہاں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے