پتنگ بازی جان کی بازی

ہمیں نہیں معلوم کہ صاف و شفاف گھروں میں رہنے والے پتنگ باز جب بجلی کی تاروں کے ساتھ لٹکتی ہوئی ڈور کے بد رنگ ٹکڑے اور پتنگوں کی باقیات کو دیکھتے ہیں تو اپنے شوق کے متعلق وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں یا نہیں۔ ہمیں ان کیفیات کا ادراک بھی نہیں جو ٹرپنگ سے جلنے والی برقی اشیاء کے مالکوں پر گزرتی ہیں۔ میرا خیال نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم پر گھر سے رزق کی تلاش میں نکلنے والے جوانوں کی گردنیں کٹی دیکھ کر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس بے حسی کو اہل لاہور نے زندہ دلی کا اعزاز بنا کر سینے سے لگا رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم چند دل جلے دوستوں نے پتنگ بازی کی وجہ سے برقی نظام کو لاحق خطرات پر کافی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ایک دوست نے بتایا کہ چند سال پہلے ایک دن میں لاہور شہر میں بارہ سو مرتبہ ٹرپنگ ہوئی۔ ایک بار ٹرپنگ ہونے سے لگ بھگ 5ہزار کا نقصان صرف برقی نظام کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ ایک فیڈر سے پانچ منٹ تک برقی سپلائی بند رہنے سے 2لاکھ کا نقصان پہنچتا ہے۔

ایک سابق واپڈا اہلکار نے بتایا کہ دھاتی ڈور کے استعمال سے واپڈا کو کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ بجلی کی ترسیل کے آلات اور تنصیبات جن میں گرڈ سٹیشن اور ٹرانسفارمر شامل ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ مسلسل ٹرپنگ نے نقصان کا حجم بہت زیادہ کر دیا ہے۔ چند دن پہلے فیصل آباد میں پتنگ بازوں نے لاکھوں روپے کی تنصیبات تباہ کیں۔ اس صورتحال میں لیسکو کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’’پتنگ بازی جاری رہی تو بجلی کا نظام ختم ہو جائے گا۔‘‘ جانے وہ کون بدبخت تھا جس نے ہماری زندہ دلی کو موت کی ڈور کے ساتھ باندھ دیا۔ جہاں تک پتنگ بازی کی روایت کا تعلق ہے تو ساٹھ ستر سال قبل شاید لاہور میں اکا دکا آدمی ہی اس مشغلے سے واقف ہو گا۔ پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے پتنگ اڑانے والوں کو آوارہ اور بدقماش سمجھا جاتا تھا لیکن یہ آوارہ لوگ بھی سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے کچھ وقت کے لئے پتنگ بازی کرتے۔ چھتوں پر دعوتوں اور مہمانوں کا اہتمام نہ ہوتا صرف گھر کا وہی آدمی یہ شوق پورا کرتا جو بزرگوں کو راضی کر لیتا یا پھر ان کی حکم عدولی پر اتر آتا۔ گھر کے باقی لوگ اور بچے اس کے قریب تک نہ جاتے لیکن ملک میں جوں جوں صنعت کی بجائے ثقافت کو روزگار پیدا کرنے والے شعبے کا درجہ دیا جانے لگا توں توں نوجوان لڑکے لڑکیاں ماڈلنگ کے نام پر جسم فروشی کی منڈی کا مال بننے لگے اور یہ مال بسنت میلوں میں سجایا جاتا ہے۔ بسنت پارٹیوں کے بھیس میں معاشرے کے امن اور عزت کی بربادی ہونے لگی۔ حکومت کے پاس بھوک سے بلکتے عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں وہ تو عید کے موقع پر بھی ہر گھر میں چولہا گرم رکھنے کا انتظام نہیں کر سکتی۔ اسے تو مدد مل گئی کہ شہر کے کچھ ٹیڑھے امراء نے ثقافت کو قابل فروخت بنانے کے گر بتا دیے۔ گڈیاں اڑانے کے لئے اب ماہر پتنگ باز دیہاڑی پر منگوائے جاتے ہیں۔ ان کی انگلیاں زخمی ہوتی ہیں زور سارا ان پر سرمایہ لگانے والے امراء کے پھیپھڑوں کا خرچ ہوتا ہے۔

شروع شروع میں رنگدار آنچل بھی ان چھتوں پر لہراتے، یہ پتنگ بازوں کی فوج کے جھنڈے نظر آتے لیکن اب ایسی پارٹیوں میں شریک ہی وہ خواتین ہوتی ہیں جو دوپٹے کو بوجھ سمجھتی ہیں۔ پتنگ بازی ایک عذاب کی طرح کشادہ چھتوں پر چلتی ہوئی غریب آبادیوں کی دس دس فٹ کی چھتوں کو پھلانگنے لگی ہے۔ ثقافت بیچنے والوں نے ان غریبوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ زندگی کی جو خوشیاں وہ سارا سال حاصل نہیں کر سکتے وہ بسنت منا کر سمیٹ لیں۔ یوں اندرون شہر اور گنجان آباد غریب علاقوں میں جس طرح نالیوں اور گٹروں سے گندا پانی ابل رہا ہوتا ہے اسی طرح کٹی پھٹی پتنگیں درختوں اور تاروں کے ساتھ چمٹی دکھائی دیتی ہیں۔ شہر میں ہر برس پتنگ لوٹتے اور اڑاتے ہوئے چھتوں سے گرنے کے واقعات ان ہی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر بسنت پروگراموں کا سب سے زیادہ اثر ان ہی علاقوں کے بچوں پر مرتب ہوتا ہے۔ سال بھر میں زیادہ تر یہی علاقے پتنگ بازی کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان علاقوں کے لئے حکومت نے جو ترقیاتی فنڈ رکھے ہوتے ہیں وہ برقی تنصیبات کی مرمت وغیرہ پر خرچ ہو جائے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ کسی غریب آدمی نے ساری زندگی روپیہ روپیہ جمع کر کے کچھ رقم اکٹھی کی ہو کہ مکان بنا لیا جائے اور جب بسنت آئے تو وہ عمر بھر کی پونجی کو پتنگ بازی میں اڑا دے۔ ہمیں اپنے طور پر یہ کرنا چاہیے کہ پتنگ بازی کو بسنت جیسے موسمی تہوار سے نکالنے کی جدوجہد کریں۔

ایسے ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں پر احتجاج کریں جن میں پتنگ بازی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہو۔ ان سرکاری محکموں کے ذمہ داروں کو عوام کی مشکلات کا احساس دلائیں جو اس قسم کی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ ایسی پرائیویٹ کمپنیوں کو خطوط لکھیں جو بسنت کے نام پر پتنگ بازی کو سپانسر کر رہی ہیں۔ محلہ اور علاقے کی سطح پر پتنگ بازی کو روکنے کے لئے مقامی آبادی میں سے ہی کوئی کمیٹی بنا کر لوگوں کا تعاون حاصل کیا جائے۔ حکومت کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ ہر علاقے کے معروف پتنگ بازوں کی فہرست تیار کرائی جائے اس علاقے میں برقی تنصیبات کو نقصان پہنچے یا کسی کی گردن کٹے تو پرچہ ان پتنگ بازوں کے خلاف درج کیا جائے۔ گڈیاں اور ڈور تیار کرنے والے اڈوں پر چھاپے مارے جائیں اور وہاں مزدوری کرنے والوں کو کسی اور ہنر کی تربیت دی جائے۔ جو بچے والدین کی حکم عدولی کرتے ہوئے پتنگ بازی کریں ان کو سزا دینے کا انتظام حکومت کرے۔ ایسے ٹی وی پروگرام کو بند کیا جائے جو پتنگ بازی کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔ حکومت ایسے میلوں کی سرپرستی بند کرے جہاں پتنگ اڑائی جائے۔ ہم افلاس کے مارے‘ پسماندگی کا شکار‘ علاج سے محروم‘ تعلیم سے دور مسائل کے مارے پاکستان میں بستے ہیں ہمارا لائف سٹائل ایسی سرگرمیوں کو کیوں جذب کر لیتا ہے جو ہماری ترقی کی دشمن ہیں۔ اس پر سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ میں اپنے ان ساتھی لکھنے والوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ترقی دشمن سرگرمیوں کو رومانس کا تڑکا لگا کر پیش نہ کریں۔ ان کی تحریروں میں پتنگوں اور دوشیزائوں کے آنچلوں کے رنگ تو ایک سے ہیں انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان پتنگوں اور معصوم افراد کے گلے سے نکلنے والے خون کا رنگ بھی تو ایک ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے