11 فروری 1984 سے 5 فروری 1991 تک کا سفر

فروری 2019 میں 11 فروری اور 5 فروری دونوں ہی گزر چکے۔سوشل میڈیا،الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے جدید دور میں ان دونوں دنوں کی مناسبت سے بے شمار تحاریر،تجزیے،تبصرے پوسٹس اور کمنٹس پڑھنے کو ملے ۔اسکے علاوہ مختلف الخیال سیاستدانوں،دانشواروں،عام عوام اور سیاسی کارکنوں کی آرا پر مبنی پروگرامز دیکھنے کو ملے۔

11 فروری 1984 مقبول بٹ شہید کی شہادت کا دن ہے اور یہ دن کشمیر کی تاریخ میں آذادی پسندوں اور خودمختار کشمیر کی آواز بلند کرنے والوں کی جہدوجہد کو نئی زندگی دینے والا دن ہے۔
اس لئے اس دن کی آمد پر خودمختار کشمیر کے حامی اس دن کو کیش کرنے کے موقع کا بخوبی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔خاص کر جب سے سوشل میڈیا جس میں فیس بک اور واٹس ایپ گروپس کا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔

خودمختار کشمیر کے حامی کشمیر کی یک طرفہ کہانی کو بیان کرتے ہوئے کشمیری نوجوانوں کو انتہائی نفرت آمیز تاریخ سنا کر پاکستان اور آذاد کشمیر کے چند انتظامی معاملات پر تنقید کرتے ہوئے بہت آسانی کے ساتھ اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں۔

اب آتے ہیں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کی طرف ۔اس بار حکومتی سطح پر انتہائی پرجوش انداز میں اس دن کی مناسبت سے تیاریاں کی گئی اور عالمی سطح پر حکومت پاکستان اور آذاد کشمیر کی حکومت اور اپوزیشن نے اس دن کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی جس میں برطانیہ کی پارلیمان سے لیکر امریکہ تک کشمیر میں انڈیا کے ظلم و ستم کی کہانیاں دنیا کے سامنے بیان کی گئیں۔

یوں تو دونوں ہی دن فروری کے مہینے میں 5 دن کے فاصلے پر ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں دنوں کے درمیان سفر صدیوں پر محیط ہے کیونکہ دونوں دن ہیں تو کشمیر میں انڈیا کی بربریت،ظلم و ستم،غاصبانہ قبضے کو اجاگر کرنے کے لئے لیکن سوچ کے وسیع فرق نے تضاد پیدا کرتے دو مختلف دن اور دو مختلف سوچیں اور نظریے پیدا کر دیے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو دنوں جن کا مقصد انڈیا کا مقبوضہ کشمیر میں غاصبانہ قبضے،وہاں کے عوام پر ظلم وستم اور آذادی کی اس آواز کو دنیا تک پہنچانا ہے جس کے لئے مقبول بٹ،افضل گرو اور برہان وانی نے اپنی جانیں قربان کر دیں کو ایک دوسرے کے قریب کیسے لایا جا سکے۔

کسی شاعر نے ایسے موقع کے لئے کیا خوب شعر کہا۔
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل دکھتا ہے

کشمیری ہونے کی حیثیت سے میرا واقعی دل دکھتا ہے کیونکہ کشمیر اسوقت تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے اور مستقبل قریب میں بھی کشمیر کو آپس میں جوڑنے کا کوئی بین القوامی منصوبہ یا پروگرام نظر نہیں آتا۔باوجود اسکے پوری دنیا میں انڈین فوج کی کشمیر میں ظلم و ستم کی داستانیں عام ہیں۔ ہم کشمیری آپس میں اکھٹے ہو کر جہدوجہد کریں لیکن 5 فروری اور 11 فروری کی آپس میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑا شگاف موجود ہے۔

ان دو دونوں کے فاصلے کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل تجاویز پر ارباب اختیار اگر غور کریں تو قوی امکان ہے کہ کشمیری قوم یک زبان ہو کر اپنی منزل آذادی کی جانب سفر کر سکے وگرنہ تاریخ میں الجھتے ہوئے وقت برباد کرتی رہے گی۔

5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے دن کو ختم کر کے 11 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کا دن منایا جائے۔

خودمختار کشمیر کے حامی خصوصاً پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چیف سکریٹری،آئی جی کی تعیناتی کو جواز بنا نوجوانوں میں احساس کمتری پیدا کرتے ہوئے انہیں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کا شکار بناتے ہیں۔اس لئے حکومت پاکستان چیف سکریٹری اور آئی جی کی تعیناتی آذاد کشمیر میں موجود سول سروس سے تعینات کرے۔

آذاد کشمیر کی حکومت کو با اختیار بناتے ہوئے اقوام متحدہ تک رسائی دیں تا کہ آزاد کشمیر مقبوضہ کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں خود پیش کر سکے۔

آذاد کشمیر میں ترقیاتی کاموں کی رفتار اور معیار کو بڑھایا جائے اور وہاں پر جاری پروجیکٹس مثلآ منگلا،نیلم و جہلم پر آذاد کشمیر حکومت کے اعتراضات کا موثر حل نکالا جائے اور ان اعتراضات کو خاطر میں لایا جائے۔

اسوقت سوشل میڈیا کی طاقت سے دشمن ملک انڈیا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے عوام میں بے چینی کی فضا پھیلا رہا ہے اور انڈیا کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ آذاد کشمیر کے عوام کو بھی پاکستان مخالف جذبات کا حامل بنا کر دنیا میں مقبوضہ کشمیر کے اصل مسئلہ کو پس پشت ڈال سکے۔اس لئے حکومت پاکستان کو حقیقی طور پر ان مسائل پر جلد سے جلد توجہ دینی ہو گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے