گیس کا بل

میں گیس کا ایک بلِ ہوں، یونٹ تو میرے 420 ہیں لیکن میں نے لوگوں کو جھٹکا 440 وولٹ کا دیا ہوا ہے۔ پرانے پاکستان میں صرف بجلی جھٹکا دیتی تھی لیکن نئے پاکستان میں میری بھی پرموشن ہو گئی ہے۔ پہلے جتنے کا میں خود ہوتا تھا اتنا تو اب میرے اوپر ٹیکس لگ جاتا ہے۔ شیخ صاحب بڑے ناشکرے ہیں، پچھلے مہینے جب میں انکے گھر تشریف لایا تو میں 4000 کا تھا لیکن شیخ صاحب کو ساری رات نیند نہیں آئی۔ کروٹ لیتے، پھر اٹھ کر بیٹھ جاتے، بے چینی میں مجھے جیب سے نکالتے اور بڑبڑانے لگتے، "لو بتائو، میں نے گھر میں تندور لگایا ہوا ہے، 4000 روپے کا گیس کا بل؟ اتنے پیسے تو ابا جی نے مجھے پندرہ سال کی عمر میں پورے خاندان کو اکٹھا کر کے دیئے تھے اور کہا تھا بیٹا لے اب تیرا میرا حساب ختم۔

یہ ہے تمہارا حصہ، اب آج کے بعد اپنا کام کرو اور مجھ سے کبھی پیسے نہ مانگنا۔ اسی 4000 روپے سے میں نے پچاس سال کام کیا، کاروبار الگ گیا اور بچے علیحدہ پالے۔ اور یہ کیا 4000 روپے کا صرف ایک مہینے کا گیس کا بل؟ لیکن یہ پرانی بات ہے، اس بات کو پورا ایک مہینہ گزر چکا ہے۔ اس دفعہ جب شیخ صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی ہے تو وہ سٹھیا گئے ہیں۔ ہیں تو پینسٹھ سال کے لیکن باقی سارے شیخ انہیں کہنے لگے ہیں کہ یہ اکہترا بہترا ہو گیا ہے (یعنی یہ حواس کھو بیٹھا ہے)۔ ہوا یوں کہ جب میں چند روز پہلے شیخ صاحب کے گھر دوبار آیا تو میں 26000 کا ہو چکا تھا، اور 4000 میرے اوپر ٹیکس لگا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے پچھلے مہینے شیخ صاحب کو بڑی مشکل سے جھیلا تھا، سو اس دفعہ آنے سے پہلے اتنا شیخ صاحب نہیں ڈرے ہونگے، جتنا میں ڈرا ہوا تھا۔

شیخ صاحب ابھی تک مجھے جیب میں لئے پھر رہے ہیں۔ کھانا پینا، کاروبار، سونا، سب کچھ چھوٹ گیا ہے۔ کبھی گلیوں میں نکل جاتے ہیں، کبھی چھت پر چڑھ جاتے ہیں۔ صرف ایک ہی سوال کرتے ہیں، بتائو ہم نے اسے اس لئے ووٹ دیئے تھے؟ ساری عمر شیخ صاحب سیاست کے قریب نہیں گئے لیکن بڑھاپے میں دھوکا کھا گئے،مہنگائی سے اتنا گھبرا گئے تھے کہ ہر وقت تبدیلی تبدیلی بڑبڑاتے رہتے تھے۔ زندگی میں پہلی دفعہ اپنی موٹر سائیکل پر ووٹ ڈالنے گئے۔ کل انکی بڑی بہن انکی عیادت کرنے آئیں۔ شیخ صاحب کو بہت دلاسہ دیا لیکن شیخ صاحب کی تو ہچکی بندھ گئی۔ کہتے جاتے، "میں نے بڑی محنت سے یہ پیسے کمائے ہیں۔ میں نے بڑی محنت سے یہ پیسے کمائے ہیں”۔ بہن نے بہت پیار کیا، گلے لگایا اور سمجھایا "گھبرانا نہیں ہے!” لیکن شیخ صاحب تو بس ۔۔۔ کہنے لگے، "باجی، اس گڑیا نے ناک میں دم کر رکھا تھا، کہتی ساری عمر پڑھائی کی اب نوکری ملی ہے تو دیر سویر ہو جاتی ہے، ایک گاڑی لیکر دو۔

دو سال میں اسے سمجھاتا رہا لیکن اسکی ماں نے مجبور کیا تو چار و ناچار ایک چھوٹی گاڑی بُک کرا دی۔ بڑی مشکل سے کاروبار سے پیسے نکال کر اس کو دئیے اور کہہ دیا کہ تیرا میرا حساب اب ختم، اب خود کمائو اور اپنا گھر بسائو۔ گاڑی تو ابھی آئی نہیں لیکن کمپنی کا لیٹر آ گیا ہے کہ ڈالر کا ریٹ قابو سے باہر ہو گیا ہے اس لئے ایک لاکھ روپے مزید جمع کرائیں۔ باجی، میں نے بڑی محنت سے پیسے کمائے ہیں” باجی نے شیخ صاحب کو پھر گلے لگایا اور کہا، "گھبرانا نہیں ہے”۔ شیخ صاحب پھر گویا ہوئے، "تیرہ ہزار بجلی کا بل بھرا ہے، باجی تم بتائو میرے گھر میں فیکٹری لگی ہے؟ رات کو صرف تین گھنٹے اے سی کا ہیٹر چلانے دیتا ہوں بچوں کو، پھر بھی تیرا ہزار بلِ۔ باجی میں نے بڑی محنت سے پیسے کمائے ہیں۔” شیخ صاحب کی حالت غیر ہونے لگی۔ پھر شیخ صاحب نے مجھے جیب سے نکال کر باجی کو دکھایا، ساتھ ہی مُنے کو آواز دی، "مُنے اپنی پھوپھو کو پڑھ کے سنائو کتنے کا بل ہے”, مُنا بولا، 26000 کا۔ اس پر ٹیکس کتنا لگایا ہے؟ مُنا بولا، 4000 کا۔

شیخ صاحب زاروقطار رونے لگے، "باجی بتائو میرے گھر میں بھٹی لگی ہوئی ہے؟ پورا مہینہ اللہ جانتا ہے میں نے بچوں کوگیس کا ہیٹر اور گیزر نہیں چلانے دیا، میرے پیچھے چھپ چھپ کر چلاتے ہوں تو بھی کتنی گیس چلا لی ہوگی؟” شیخ صاحب ہلکان ہو گئے اور ایک ہی بات دہراتے جاتے تھے، باجی میں نے بڑی محنت سے پیسے کمائے ہیں”۔ باجی بھی بے ساختہ ایک ہی بات دہراتی جاتی، "گھبرانا نہیں ہے، گھبرانا نہیں”۔ لیکن وہ اپنے بھائی کو جانتی تھی۔ رخصت ہوتے وقت منہ میں بڑبڑا رہی تھی، اس کا تو 26 روپے کا نقصان ہو جائے تو 26 روز تک سو نہیں پاتا، 26000 کا گیس کا بِل؟ یااللہ اسے اس صدمے سے بچا لینا!

آج میری آخری تاریخ ہے، اگر آج میں جمع نہ ہوا تو میرے اوپر 3000جرمانہ بھی لگ جائے گا۔ شیخ صاحب کا سوچتا ہوں تو خوف آتا ہے لیکن پھر باجی کی آواز کانوں میں گونجتی ہے، ’’(پاکستانیو) گھبرانا نہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے