مقبوضہ کشمیر میں خود کش حملہ اور این جی اوز کے دانش گرد

ادھر مقبوضہ کشمیر میں خود کش حملہ ہوا ، اِدھر ففتھ جنریشن وار کے لشکری متحرک ہو گئے ۔ بھارت نے تو سی سی ایس کی میٹنگ اگلے روز بلائی ، ہمارے ہاں لشکریوں پرایک لمحے میں انکشاف ہو گیا کہ اس کے تانے بانے پاکستان سے ملتے ہیں ، یاروں نے ہاتھ نچا نچا کر طعنے دینے شروع کر دیے کہ اب دیکھنا پاکستان کیسے مزید تنہائی کا شکار ہو گا ۔ ففتھ جنریشن وار کے یہ لشکری گریہِ نیم شبی میں رات کے دوسرے پہر جب لڑکھڑائے تو ان کے خیال میں تحریک آزادی کشمیر کا خاتمہ ہو چکا تھا۔

ایک واقعہ ہوا ہے ۔ اسے دیکھنے کے بہت سے زاویے ہو سکتے ہیں ۔ ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک مفروضے پر استدلال کی عمارت کھڑی کر دینا ، علم اور دلیل کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ لشکری مگر محاذ پر داد شجاعت دے رہے ہیں ۔ دلیل سے انہیں کیا واسطہ ؟ دنیا کے ہر موضوع پر یہ لشکری انتہائی ٹھنڈے ٹھار ہو کر تمام پہلوؤں اور سارے امکانات پر غور فرماتے ہیں لیکن جب کہیں پاکستان کا نام آئے تو یہ سارے امکانات اور تمام پہلو دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور یہ لشکری اپنی ریاست کے خلاف یوں ہم آواز ہو جاتے ہیں جیسے انہیں کسی شیطان نے چھُو لیا ہو۔

حملہ آور عادل دار مقامی تھا ۔ اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ میں دنیا سے پوچھتا ہوں ہمارے بچے بندوق کیوں اٹھا رہے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب لشکریوں کے پاس ہے نہ ان کے ڈونرز کے پاس ۔ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے یہ اس کا منطقی رد عمل ہی تو ہے ۔ فاروق عبد اللہ جیسے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس واقعے میں پاکستان ملوث نہیں ۔ ان کا کہنا ہے یہ سب کچھ مقامی لڑکے کر رہے ہیں ۔ کوئی اس پر غور فرمائے گا کہ مقامی لڑکے یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟

کشمیر کی صورت حال کا اندازہ صرف ان چند قوانین سے لگایا جا سکتا ہے جو دنیا کی اس مبینہ طور پر سب سے بڑی جمہوریت نے کشمیر میں نافذ کر رکھے ہیں ۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو2 سال تک بغیر کسی ثبوت حتی کہ الزام کے بغیر بھی گرفتار کر کے قید میں رکھا جا سکتا ہے اور ان دو سالوں میں ا س پر مقدمہ چلانا بھی ضروری نہیں ۔ گرفتار کیا اور دو سال کے لیے قید کر دیا ۔ نہ مقدمے کا تردد نہ گواہی اور ثبوت کی ضرورت ۔

ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ کے تحت کسی بھی ہیڈ کانسٹیبل کو Shoot to kill کا اختیار حاصل ہے اور کانسٹیبل صاحب کوکسی بھی قانونی کارروائی سے استثناء بھی حاصل ہے ۔ وہ جسے چاہیں گولی مار کر قتل کر دیں ان کے خلاف عدالت سے رجوع نہیں کیا جا سکتا ۔

ٹاڈاکے تحت اگر کوئی شخص صرف اتنا کہہ دے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تو اسے ایک سال کے لیے قید میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ اس دوران مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے نہ فرد جرم عائد کرنے کی ۔

آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ تو اپنی نوعیت کا واحد احمقانہ قانون ہے۔ اس کے تحت اگر فورسز کو یہ شک ہے کہ کوئی شخص مستقبل میں کوئی جرم کر سکتا ہے تو وہ گولی چلا کر اسے قتل کر سکتی ہیں ۔ کسی بھی عمارت کو اس شک کی بنیاد پر تباہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ عمارت کسی مسلح کارروائی کے لیے بطور پناہ گاہ استعمال ہو سکتی ہے ۔ یعنی جرم ہوا نہیں اور قتل کا لائسنس دے دیا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ فورسز کے خلاف کسی عدالت سے بھی رجوع نہیں کیا جا سکتا ۔ انہیں مکمل استثناء حاصل ہے۔

ان قوانین کی عملی شکل ہمارے سامنے کبھی آ ہی نہیں سکی ۔ بین الاقوامی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت ہی نہیں ۔ پیلٹ گنز سے نہتے عوام اندھے ہو رہے ہیں ۔ معصوم لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔ حقوق انسانی پامال ہو رہے ہیں ۔عزت و ناموس خطرے میں ہے۔ دنیا ان کی بات نہیں سن رہی ۔ ایسے میں وادی کے نوجوان کس نفسیاتی کیفیت سے گزر رہے ہیں ، کیا کسی کو اس کا اندازہ ہے؟ کسی نے خود کش حملے کی راہ اختیار کر لی تو اس کی وجوہات تو وہیں موجود ہیں ۔ ففتھ جنریشن وار کے لشکری مگر اس پہلو پر توجہ نہیں فرمائیں گے ۔ وہ محاذ پر ہیں اور نشانہ پاکستان ہے۔

مودی کی سیاسی حیثیت بھی ہمارے سامنے ہے ۔ آئندہ انتخابات میں اسے شکست کا خطرہ ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں جتنا تناؤ بڑھے گا اور بھارتی معاشرے میں جتنا جنون پھیلے گا ، مودی کو اس کا براہ راست فائدہ ہے۔ مسلسل کہا جا رہا تھا کہ وہ الیکشن سے پہلے کوئی مس ایڈ ونچر کر سکتا ہے۔ تو اس امکان کو کیسے نظر انداز کر دیا جائے کہ مودی ہی نے یہ کروایا ہے ؟ یہ محض ایک سازشی تھیوری نہیں ، شام اور عراق میں جو کچھ ہو چکا اس کے بعد ہمیں یہ تو جان ہی لینا چاہیے کہ یہاں مقاصد کے حصول کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا ۔ لشکری اگر چپ ہیں تو اس یہ مطلب تو نہیں کہ ہم بھی نہ پوچھیں کہ یہ کیسے ہو گیا کہ دھماکا بھی ہو گیا ، ویڈیو بھی بن گئی ، اور پھر فوری طور پرکسی نے ذمہ داری بھی قبول کر لی، تاکہ مودی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کرنا چاہے تو اسے کوئی دشواری نہ ہو۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ سعودی ولی عہد آ رہے ہیں ۔ غیر معمولی معاشی امکانات دستک دے رہے ہیں ۔ پاکستان اس موقع پر ایسی کارروائی کیوں چاہے گا ؟ دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر لٹکی ہے۔ کیا پاکستان کے پالیسی ساز اتنے ہی گاؤدی ہیں کہ اس تلوار کے سامنے گردن پیش کر دیں؟

وادی میں غیر معمولی مزاحمت عروج پرہے ، یہ مقامی بھی ہے اور غیر مسلح بھی ۔ بھارت اس کے سامنے بے بس ہو چکا ہے ۔ وہ نہ اسے پاکستانی سازش کہہ سکتا ہے نہ اسے دہشت گردی کا نام دے سکتا ہے۔ اس غیر مسلح مزاحمت نے دنیا کو کشمیر کی جانب متوجہ بھی کیا ہے۔ مغربی دنیا میں کشمیر کا نام پوری قوت سے گونج رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے اس حال ہی میں کشمیر پر رپورٹ پیش کی ہے ۔ برطانیہ کے پارلیمانی گروپ کی رپورٹ آئی ہے ۔ نیویارک تائمز نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو غیر معمولی کوریج دی ہے ۔ خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ ایسے میں بھارت کی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ غیر مسلح تحریک تشدد کا رخ اختیار کرے تا کہ بھارت بین الاقوامی فورمز پر اسے دہشت گردی قرار دے کر دباؤ سے نکل سکے ۔ پاکستان ایسا کیوں چاہے گا ؟ پاکستان کے فیصلہ ساز کیا اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو اس وقت بھارت کے لیے سب سے پریشان کن چیز وادی میں جاری غیر مسلح مزاحمت ہے؟

حقائق عیاں ہیں،ففتھ جنریشن وار کے جنگجو وں کا مسئلہ مگر کچھ اور ہے ۔ یہ لشکری محاذ پرہیں اور ان کی حالت یہ ہے جیسے انہیں شیطان نے چھُو لیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے