بیرسٹر ظفر اللہ خان کی کتاب "حرف محرمانہ” اور ایک شکوہ

بیرسٹر ظفر اللہ خان کسی تعارف کے محتاج نہیں ، علمی دنیا میں انکا نام ہے ، تاہم عوام انہیں وفاقی وزیر برائے قانون انصاف اور میاں نواز شریف کے خصوصی معاون کے طور پر جانتی ہے ، کچھ ٹائم پہلے انکی کتاب "کسی اور زمانے کا خواب ” سے تعارف ہوا ، انکی کتاب پڑھ رہا تھا کہ ایک واقعہ ذہن میں بیٹھ گیا ، فیس بک پر لکھا تو ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی دوسری کتاب "حرف محرمانہ ” کا بتایا ، اور پھر مہربانی کرتے ہوئے یہ کتاب بھی بھیج دی ، انکی کتاب مکمل پڑھی ، حرف حرف پڑھا ، لفظ لفظ نظروں سے گزرا ،

انکی کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلے حصے میں ظفر اللہ خان صاحب کی تحقیق بولتی ہے ، انکا مطالعہ جھلکتا ہے ، وہ ماضی سے متعارف کرواتے ہیں ، اور بتاتے ہیں کہ کیسے ہم نے دنیا پر فتح حاصل کی ، ہماری ایجادات کیا کیا تھیں؟ ہم نے عقل کا استعمال کیسے کیا ، ہم نے سوال اٹھانے کو برا نہیں جانا ، ہم نے ہر چیلنج کا سامنا کیا ، ہم علم میں آگے تھے ، ہم طب میں آگے تھے ، ہم فنون لطیفہ میں آگے تھے ، ہم سائنس میں آگے تھے ، ہم ریاضی میں آگے تھے ، ہم کائنات کو تسخیر کیا کرتے تھے ، پھر ہم خواب غفلت میں کھو گئے ، ہم لمبی چادر تان کے گہری نیند سو گئے ، ہم عیاشیاں کرنے لگے ، ہم تاج محل بنانے لگے ، ہماری یونیورسٹیاں ویران ہو گئیں ، ہمارا ذہین دماغ کوئی اور لے اڑا ، ہمارا اقتدار ہم سے جاتا رہا ، ہمارا جہاز ڈوب گیا ، ہم جس شاخ پر بیٹھے تھے اسی کو کاٹنے لگ گئے ،

نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا ، قدرت کسی کی رشتہ دار نہیں ، قدرت محنت کرنے والوں کو صلہ دیتی ہے ، مغرب ہمارے اصولوں پر چلا اور کامیاب ہو گیا ہم نے اپنے اصولوں سے رو گردانی کی اور ناکام ہو گئے ، ہم ابھی تک ناکام ہیں ، اگر کوئی ناکامی سے نکالنے کی بات کرتا ہے تو اسے دھکتار دیتے ہیں ، اسکا جینا حرام کر دیتے ہیں ، ہمیں سوال سننا ہو گا ، ہمیں محنت کرنی ہو گی ، ہمیں اپنا عروج واپس لینا ہے ،

کتاب کا پہلا حصہ بتاتا ہے کہ ہم عروج کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟ مذہب دنیا کی ترقی میں کردار کیسے ادا کر سکتا ہے ؟

کتاب کا دوسرا حصہ پڑھتے ہوئے ظفر اللہ خان صاحب ایک صوفی لگے ، اس حصے میں درد غالب تھا ، اسلام کے سماجی پہلوؤں پر مفصل بات کی ہوئی تھی ،

بیرسٹر ظفر اللہ خان سابق سیکرٹری قانون ،وزیر اعظم کے مشیر برائے برائے قانون ، انصاف اور عدالتی امور رہے ۔ وہ مختلف جامعات میں پڑھاتے بھی رہے ۔

منبر کے وارثوں کو دوسرا حصہ ضرور پڑھنا چاہیے ، سبھی ابواب اچھے ہیں ، مگر خلق عظیم اور احترام آدمیت کے ابواب لاجواب ہیں ،خلق عظیم اور احترام آدمیت کے ابواب پڑھے تو آنسو لڑی کی صورت بہہ پڑے ، اپنے نبی سے محبت میں اضافہ ہوا ، کچھ واقعات آپ بھی پڑھیں ،

بیرسٹر ظفر اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب مدینہ ہجرت کر رہی تھیں کہ ھبار بن اسود نے آپ کے اونٹ کو نیزہ مارا ، حضرت زینب اونٹ سے گر پڑیں ، گرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا حمل ضائع ہو گیا ، اس کے بعد انہوں نے بقیہ عمر بیماری میں گزاری ، کچھ ہی مدت بعد ھبار بن اسود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی چاہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو بغیر کسی شرط کے معاف کر دیا ،

بیٹیوں والے ہی جان سکتے ہیں کہ بیٹی کیا ہوتی ہے ؟ بیٹی بے سکون ہو تو باپ بے سکون ہو جاتا ہے ، میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں ، بیٹی ہجرت کر رہی ہے ہجرت کا الگ دکھ ، حمل کے ضائع ہونے کا الگ دکھ ، بیماری کا الگ دکھ ، یہ سب دکھ بھلا دیے ،بیٹی کو دکھ دینے والے سے بدلہ نہیں لیا ، ھبار معافی مانگنے آیا تو بغیر کسی شرط کے معاف کر دیا ، ہماری بیٹیوں پر کوئی انگلی اٹھائے تو ہم کہتے ہیں کہ ہماری پگ کو داغ لگ گیا ، نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلے کے بجائے معافی کو ترجیح دی ،

عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی نے جب شوہر کی معافی چاہی تو آپ نے معاف کر دیا ، حضرت عکرمہ جب خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آئے تو آپ نے صحابہ سے کہا کوئی اسکے باپ کو برا نہ کہے ، مردہ شخص کو برا کہنے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے ، کہاں وہ دشمن جان اور کہاں یہ اخلاق ،صحابہ کو ابو جہل کی برائی سے روک دیا ،اور روکا اس وقت جب آپ فاتح تھے ، مکہ فتح کر چکے تھے ،

ایک اور واقعہ پڑھیں

آپ صحابہ کیساتھ گزر رہے ہیں راستے میں کتیا بچوں کو دودھ پلا رہی تھی ، آپ نے راستہ بدل دیا ، اور فرمایا ہم اسی راہ چلے تو بچوں کے دودھ پینے میں خلل آئے گا ، بچوں کو آرام سے دودھ پینے دیا جائے ، افسوس کہ لوگوں سے میرا یہ نبی چھپایا گیا ، میرے نبی کی تلوار تو بتائی گئی رحم نہیں بتایا گیا ،

حرف محرمانہ کا عکس

کتاب کے دوسرے حصے میں اقلیتوں کے حقوق ، عورتوں کے حقوق ، اجتہاد اور قومی ریاستوں میں زندگی گزرانے کے حوالے سے تفصیلی باتیں موجود ہیں ،

دوست یہ کتاب پڑھیں ، منبر کے وارث یہ کتاب ہر وقت پاس رکھیں ،مذہبی لوگ سائنسدان پیدا نہ کریں مگر معاشرے کو ستھرا تو بنا دیں ، ہم دنیا کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے تو بگاڑ میں ہمارا حصہ نہیں ہونا چاہیے ، ہمیں اخلاقی لحاظ سے بلند ہونا چاہیے ،

مذہب کے نقاددوں سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب کے پہلے حصے کو ضرور پڑھیں ، جن لوگوں کو ترقی کے راستے میں مذہب رکاوٹ نظر آتا ہے وہ ، ہم پر مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے ، والا باب ضرور پڑھیں ،

کون غلطی کہاں کر رہا ہے ؟ اور اسکا حل کیا ہے ؟ ان دو سوالوں کے جوابات آپ کو حرف محرمانہ میں ضرور ملے گے ،

کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی ،

البتہ ایک دکھ بھی ہوا کہ اتنا بڑا عالم عوام سے کٹا ہوا ہے ، بیرسٹر ظفر اللہ خان صاحب کا میدان سرکاری نوکری یا وزارت نہیں انکا میدان سماج ہے ، انہوں نے خلا چھوڑا اور اس خلا کو جاہل خطیبوں نے پر کیا ، اب یہاں خطیبوں کی شعلہ بیانی بکتی ہے عالم کی دلیل نہیں ،

ویسے بھی اپنا ماننا تو یہ ہے کہ جس سماج کے علماء سرکاری نوکری کرنے لگ جائیں یا حکومتوں کا حصہ بن جائیں اس سماج پر جاہل خطیب راج کرتے ہیں

عالم کو خلا پر کرنا چاہیے ، امید ہے کہ یہ خلا پر ہو گا _

نوٹ
یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کی ہے ، فون نمبر 51_9261125 ہے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے