ہماری یادداشت کمزور ہے

ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی تصنیف ’جاوید نامہ‘ میں مرشد بے مثل جلال الدین رومی کی رہنمائی میں آسمانوں کا سفر کیا۔ اس تخیلاتی سفر میں شاعر بے بدل نے مختلف شخصیات سے ملاقات کے پردے میں فلسفے، سیاست اور تمدن پر اپنے گراں قدر خیالات بیان کئے۔ جاوید نامہ میں اقبال نے اپنے لئے ’زندہ رود‘ کا لقب اختیار کیا یعنی وہ تیز نگاہ جو افلاک کے اسرار کی کھوج میں زندہ روانہ ہوا اور زندہ واپس آیا۔ اقبال کی فکر اور شعر میں وجود کی اس بلند مقامی کا راز ایک نکتے میں بیان کیا جا سکتا ہے، عصبیت سے نجات۔ اقبال عصبیت کو انسان کے امکان کی موت سمجھتے تھے۔ جاوید نامہ کی ابتدائی سطریں دیکھیے۔

آیہ تسخیر اندر شانِ کیست؟ (تسخیر کی کلید کس کی شان بیان کرتی ہے ؟ انسان کی )ایں سپہر نیلگوں حیرانِ کیست؟ (نیلا آسمان کس کی عظمت پر حیران ہے؟ انسان کی)

انسان کی یہ منزلت عصبیت کی تنگنائے سے نجات پائے بغیر ممکن نہیں۔ اقبال کو مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ گویا اقبال کے حرف شیریں ترجماں کے مخاطب اس وطن کے باشندے تھے جس نے اقبال کو اپنا فکری رہنما قرار دیا۔ پوچھنا چاہیے کہ کیا پاکستان نے عصبیت سے چھٹکارا پایا؟ اقبال زندہ رود تھے لیکن ان کے مخاطب محض ابو حمار۔ ابو حمار کا لغوی مطلب تو استاذی ڈاکٹر خورشید رضوی سے دریافت کیجئے گا، سادہ مفہوم یہ کہ وہ گروہ جو آمریت کو منزل، بھیک کو رزق اور جہالت کو ایمان سمجھتا ہے۔

ان دنوں برادران عبدالرؤف اور حماد غزنوی سے ملاقات کی نعمت نصیب ہے۔ یہ دونوں اصحاب گنجینہ فلم کے اسرار شناس ہیں۔ آج اس مصاحبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم ٹیکنیک کا ابتدائی سبق آزمایا جائے یعنی فلیش بیک۔ لوح امروز پر لکھا ہے کہ لورا لائی کے مقتول سیاسی کارکن کی تفتیش بند گلی میں داخل ہو گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ساہیوال کے چار مقتولین کے لہو کی لکیر مٹی میں کھو گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے چودہ مظلوموں کے خون کی گتھی سلجھ نہیں سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ ملتان میں راشد رحمان کے قاتل گرفتار نہیں ہو سکے۔ کیوں؟ اس لئے کہ راولپنڈی کی سڑک پر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نشان مٹا دئیے گئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ کراچی میں بارہ مئی 2007کے 42لاشوں پر انصاف کی چادر نہیں ڈالی جا سکی۔ کیوں؟ خاموش کہ لہو کے سراغ کی یہ بل کھاتی لکیر کچھی پھاٹک سے ہوتی راولپنڈی جیل تک پہنچتی ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے گزرتی پولی ٹیکنیک راولپنڈی تک جاتی ہے، کمپنی باغ میں قائد ملت کے لہو کا خراج لیتی بابڑہ تک جاتی ہے۔ گہرے پانیوں کے یہ مناظر عامیوں کی حدود سے باہر ہیں۔ پلٹ جاؤ، ابو حمار کی کہانی بیان کرو اور ہمیں بتاؤ کہ یہ سو برس کا قصہ کیا ہے؟

ٹھیک سو برس پہلے، 1919ء میں ہندوستان میں دو اہم معاملات پیش آئے۔ عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد مانٹیگو- چیمسفورڈ اصلاحات نافذ کی گئیں اور تحریک خلافت شروع ہوئی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1919ء کی تفصیل کو توقف دیجئے۔ یاد فرمائیے کہ تحریک خلافت کے مقاصد کیا تھے؟ تحریک خلافت کس حد تک عصری حقائق سے ہم آہنگ تھی؟ تحریک خلافت میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کا اعلان کس حد تک درست فیصلہ ثابت ہوا؟ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں سے قطع تعلق کے معیشت اور سیاست پر کیا اثرات برآمد ہوئے؟ اور ایک آخری سوال، عقلائے قوم کے مرتب کردہ نصاب میں جہاں تحریک خلافت کی مدح کا طویل باب رقم کیا جاتا ہے، وہاں یہ وضاحت کیوں نہیں کی جاتی کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اس تحریک میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ لائیڈ جارج نے خلافت وفد کو دھتا بتایا، سو یہی ہونا تھا۔ 1926میں اماکن مقدسہ کی حرمت کے ضمن میں ابن سعود کی خدمت میں بھیجا گیا وفد کیوں بے نیل مرام لوٹا؟ جواب خود سے سوچئے۔ حال کی تصویر یہ ہے کہ اگست 2018میں طیب اردوان پوری صدی کے عظیم رہنما تھے۔ فروری 2019میں یہ منصب کسی اور کو مل گیا۔ ابو حمار کل بھی ہاتھ کی چھڑی تھا، ابو حمار آج بھی جیب کا رومال ہے۔

قابل احترام بزرگوں کو یقیناً یاد ہو گا کہ 1956ء میں سویز بحران پر کیا کیا قصے ہوئے۔ یوم مصر منایا گیا۔ فوج بھیجنے کا مطالبہ ہوا۔ وزیراعظم سہروردی نے بلاد مصر کا عزم باندھا۔ جواب یہ ملا کہ جمال ناصر نے پاکستانی وفد کی پذیرائی سے انکار کر دیا اور ایک دھواں دھار بیان میں بھارت کے موقف کی حمایت کی۔ ستمبر 1970میں جمال عبدالناصر کا انتقال ہوا تو لاہور میں غائبانہ نماز جنازہ کے مناظر میں سویز بحران سے سیکھے کسی سبق کا نشان تک نہیں تھا۔ ابو حمار سادہ ہے اور قوت حافظہ کمزور ہے۔ فروری 1974میں ایک عظیم الشان میلہ سجایا گیا۔ مقصد محض بنگلہ دیش کو منظور کرنا تھا۔ تب کسی نے سوچا اور نہ آج کسی کو یاد ہے کہ ہمسایہ ملک ایران اس کانفرنس میں شریک کیوں نہیں ہوا؟ اسی سے جڑی ایک یاد یہ کہ 1979کے بعد مختار مسعود کی ’لوح ایام‘ تھی یا سبط حسن کی ’انقلاب ایران‘، ارشاد حقانی کا تجزیہ تھا یا سید برہان الدین کی یاد داشتیں، امام خمینی کی مدح کے نمونے تھے۔ ابو حمار گردن پھیر کر دیکھتا ہے اور قافلہ انقلاب کی گرد تک نظر نہیں آتی۔ کالم ختم پہ آیا، وہ مانٹیگو – چیمسفورڈ اصلاحات کا ذکر رہا جاتا ہے۔ صاحبو، 1919کی ان اصلاحات کا بنیادی نکتہ دوہری حکومت کا نظام (Dyarchy)تھا۔ دفاع، خارجہ امور، ریلوے، مواصلات کے محکمے براہ راست وائسرائے کو جواب دہ تھے۔ گلیوں کی تعمیر، نالیوں کی صفائی، صحت عامہ، جیل، تھانہ جیسے محکمے منتخب نمائندوں کے سپرد تھے۔ جلالت مآب ابو حمار کی عظمت نے ٹھیک سو برس کا فاصلہ طے کر لیا۔ سیاسی شعور اور تمدنی ارتقا کی خبر لینا اور ذرا دیکھنا، اقتدار اور اختیار کی تقسیم میں کہیں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے