بیورو کریٹ دوستوں سے معذرت کے ساتھ!

(گزشتہ سے پیوستہ)

پھر یوں ہوا کہ ساری فضا ہی تبدیل ہو گئی، میں اپنے گھر سے خاموشی سے نکل کر اپنے دفتر میں آ جاتا تھا، میرے گھریلو اور دفتر کے ملازمین کی نظر اگر مجھ پر پہلے پڑ جاتی تو وہ مسکرا کر مجھے سلام کرتے اور اگر میں انہیں پہلے دیکھ لیتا تو میں انہیں سلام کرتا، اس کے بعد میرا اسٹاف بے جھجک فائلیں لے کر میرے دفتر میں آتا اور سمری بھی وہی بھیجتا جو میری منشا نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہوتی۔ صرف یہی نہیں اب سائل بھی بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے مسائل کے حل کیلئے میرے دفتر میں چلے آتے کیونکہ میں نے اپنے سیکرٹری کو کہہ دیا تھا کہ جب میں میٹنگز اور دفتری کام نمٹالوں تو کسی کا رستہ نہ روکو اور انہیں اندر آنے دو۔ اب میں ٹیلیفون بھی اٹینڈ کرتا تھا یا بعد میں کال کر لیتا، میں نے ’’سرخ فیتہ‘‘ کو بھی چھٹی دے دی اور لوگوں کو سہولتیں دینے لگا، انہیں اپنے جائز کاموںکیلئے اب کسی سفارش یا کسی اہلکار کی مٹھی گرم کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ میری زندگی کے یہ وہ دن تھے جب لوگ مجھ سے ڈرتے نہیں مجھ سے محبت کرتے تھے اور وہ مجھے بددعائیں نہیں دعائیں دیتے تھے۔

اسے آپ کچھ بھی نام دیں، ہوا یوں کہ میرا ایک بچپن کا دوست جو ایک عالمی بینک میں مجھ سے بھی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا، واشنگٹن سے پاکستان آیا تو مجھ سے ملاقات کے دوران سخت پریشان ہوا، اس نے کہا:اگر تم نے کیڑوں مکوڑوں کو اپنے برابر ہی لا کھڑا کرنا تھا تو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تمہاری کلاس پورے پاکستان کی دانش کا نچوڑ ہے، تمہارا کام لوگوں پر حکومت کرنا ہے، ان کے مسائل حل کرنا یا انہیں اپنے برابر کھڑا کرنا نہیں، خود کو ڈی کلاس کرنے سے باز آئو تمہاری وجہ سے تمہارے پورے طبقے کے رعب داب میں کمی واقع ہوگی اور یوں حکومت کا نظام چل نہیں پائے گا۔ میرے دل پر میرے دوست کی باتوں کا بہت اثر ہوا، خود بھی کئی دنوں سے محسوس کر رہا تھا کہ ایسی عزت کا کیا فائدہ جس کا کھڑاک ہی سنائی نہ دے، چنانچہ میں واپس اپنی پہلی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اب پھر میں وہی تھا، وہی لوگوں میں خوف ہراس تھا، وہی سیلوٹ تھے، وہی عوام کے کاموں میں رکاوٹیں تھیں اور وہی من مانیاں تھیں۔ میں نے اس اللہ والے کی طرف بھی جانا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ وہ مجھے پھر اسی رستے پر چلانے کی کوشش کرے گا جس رستے سے ابھی میں بڑی مشکل سے واپس آیا ہوں۔

آخر میں مجھے آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ یہ پرانے دنوں کی باتیں تھیں، میں چھ ماہ پہلے ریٹائر ہوچکا ہوں اور اب سارا دن اپنے گھر میں اکیلا پڑا رہتا ہوں، نہ مجھے کوئی فون کرتا ہے، نہ مجھے کوئی ملنے آتا ہے اور نہ مجھے دیکھ کر کوئی خوفزدہ ہوتا ہے۔ اب میرا رابطہ میری ہی طرح کے ریٹائرڈ دوستوں سے ہے اور ہم جب ملتے ہیں تو اپنی بادشاہت کے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی قماش کے آِن سروس دوستوں سے گلہ ہے کہ ہم اگر کبھی انہیں کسی کام کیلئے فون کریں تو وہ ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو ہم دوسروں کے ساتھ روا رکھتے تھے، یعنی نہ صرف یہ کہ کام نہیں کرتے بلکہ انہیں رنگ بیک کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی۔ ہمارے جو ماتحت افسران تھے وہ بھی سب کے سب ہم سے منہ موڑ چکے ہیں، ان حالات کے نتیجے میں میری ساری رعونت کافور ہو چکی ہے، میرا چہرا اب کھنچا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اس میں ملائمت ہوتی ہے۔ اب میں انسانوں کو کیڑا مکوڑا نہیں اللہ کی مخلوق اور اپنے برابر سمجھتا ہوں، میرا ارادہ ایک دو دنوں میں اُسی اللہ والے سے ملنے کا ہے جس نے کچھ عرصہ کیلئے میری زندگی کا رخ موڑ دیا تھا، میں انہیں بتائوں گا کہ اب میں ویسا ہی بن گیا ہوں جیسا کہ آپ مجھے بنانا چاہتے تھے اور میں اس وقت تک ان شاء اللہ ایسا ہی رہوں گا جب تک وزیراعظم مجھے کنٹریکٹ پر کسی نئی اسامی پر فائز نہیں کرتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے