اپنے گھوڑے تیار رکھّو

خوف کا توازن! جی ہاں خوف کا توازن ہی امن کی ضمانت ہوتا ہے۔ کتاب میں ارشاد یہ ہے: اپنے گھوڑے تیار رکھّو۔
بہت دنوں کے بعد، افق پہ روشنی ہے۔ بہت دن کے بعد ایک ایسی تقریر قوم نے سنی، جس پر داد دی جا سکتی ہے۔ معرکۃالآرا تو نہیں مگر یہ بہترین خطاب تھا۔ اتنی ہی بات کی، جتنی ضروری تھی۔ انہی نکات پہ زور دیا، جن پہ دینا تھا۔ ایسی ہی گفتگو ہوتی ہے، عبقری اسد اللہ خان غالبؔ نے ، جس پر کہا تھا :

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

فصاحت کے جو پیمانے قدیم عربوں نے بنائے تھے، آج تک معیاری ہیں۔ ”خیر الکلام ما قلا و دلا‘‘۔ وہ کہا کرتے۔ بہترین کلام وہ ہے جو مختصر اور مدلل ہو۔
جاہلیت میں سات بڑے شاعروں کے قصائد خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکے تھے۔ اسی لیے انہیں ”سبع معلقات‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی سات معلّق کلام۔ ان میں سے ایک امرائو القیس بھی تھا، بعض جسے عرب کا سب سے بڑا شاعر کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں رسول اکرم ؐسے منسوب ہے : وہ شاعروں کا سردار ہے اور جہنمیوں کا بھی؛ اگرچہ بالکل غور طور پہ۔ سات مستند کتبِ احادیث تو کیا، کسی بھی معتبر شخصیت نے کبھی اس پر صاد نہ کیا۔

خلقِ خدا کہانی کی شائق ہوتی ہے۔
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

ازل سے داستانوں سے دل بہلاتی آئی ہے۔ عامیوں کے مزاج میں غلو ہوتا ہے ۔ شاعری کی دنیا تو ہے ہی مبالغے کی دنیا۔
امرائو القیس نے کہا تھا: جب ہم بات کرتے ہیں تو سب خاموش ہو جاتے ہیں اور جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو کسی کے کہنے کو کچھ باقی نہیں بچتا۔
عمران خان چرچل نہیں، عالمگیر جنگ میں جس نے برطانیہ کی قیادت کی۔ تاریخ کے ان چند سیاست دانوں میںسے ایک، جنہیں جنگی ہیرو مانا گیا۔ یہی نہیں ادب کا نوبل پرائز بھی لے اڑا۔ میدانِ سیاست میں فصاحت کے آرزو مندوں کے لیے ، اس کی تقاریر سونے کی کان ہیں۔ سنہری اشرفیاں، چھنن، چھنن!
کرشماتی شخصیت کے علاوہ خان کا ہنر اس کا اعتماد ہے۔ زبان و بیان کے آدمی اگرچہ وہ نہیں۔ شعر و ادب سے برائے نام دلچسپی ہے۔ اقبالؔ کے مدّاح ہیں، سن سنا کر، کچھ مطالعہ کر کے ‘ ڈھنگ سے اس پر بات بھی کرنے لگے ہیں۔ مگر اس باب میں، سیاستدانوں ہی سے افضل ہیں، کوئی احمد جاوید نہیں۔
احمد جاوید کو جو نہیں جانتے، ان کے بارے میں یہ کہیے: آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں۔ محض میر تقی میرؔ پہ درجنوں بلکہ سینکڑوں خطابات ان کے موجود ہیں۔ قوّت متخیلہ ایسی کہ سبحان اللہ۔ مطالعہ اس قدر وسیع کہ قاری اور سامع دنگ رہ جائے۔ نشّہِ علم میں سرشار، خبطِ عظمت کا شکار ہو جاتے۔ اللہ نے بچا لیا کہ قرآنِ کریم میں جی لگایا۔ تصوّف کے گلستان میں جا اترے۔ پہلا سبق ہی وہاں سپرِ اندازی کا ہوتا ہے۔
جتن جتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا
جتن دا مل کوڈی پیندا، ہارن دا مل ہیرا
اس دیار میں سلطانی اسے عطا ہوتی ہے، جو اپنا آپ ہار جائے۔ پورے کا پورا ہار جائے، دل ہی نہیں، دماغ بھی۔ افتخار عارف کا شعر ہے:
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ عزت نہیں ملنے والی
کہاں سے بات کہاں نکل گئی۔ ایک شعر جناب احمد جاوید کا سنانا تھا کہ کہانی ہو گئی۔
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم، جیسے جہاں بانی سے ہم

علم و فضل کا نہیں، جہاں بانی عقلِ عام کا کاروبار ہے، قوّت فیصلہ کا۔ کامیاب حکمران وہ ہے، فیصلہ صادر کرتے جو تذبذب کا جو شکار نہ ہو۔ کامران کاروباری وہی جو خطرہ مول لے۔ کارگر حکمران وہ جو دانا لوگوں سے مشورہ کرے۔ ایک دو، تین چار، گیارہ بارہ سے۔ مگر فیصلہ خود کرے۔ اس لیے کہ ہر سوچنے اور ہر اظہار کرنے والی کی محدودات ہوتی ہیں۔ اس کا پسِ منظر، اس کا طرزِ احساس، اس کی پسند اور نا پسند اور ہاں! اس کے تعصبات ہوتے ہیں۔ تعصبات سے آدمی کو رہائی نہیں۔ عہدِ اوّل کے ان پاک بازوں کے سوا، سایۂِ رسالت میں جو جیے۔ وہ تاریخ کا واحد استثنیٰ تھے۔ کتاب میں لکھّاہے: آدمی اپنے اعمال کے عوض یرغمال ہوتا ہے۔
لگتا ہے کہ اب کی بار خان صاحب کو مشیر اچھّے ملے۔ گمان یہ ہے کہ ایک تو جنرل قمر جاوید باجوہ کہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی صلاحیت سے رکھتے ہیں۔ شاید کچھ اور بھی، شاید، شاید!
روایت کے مطابق سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا: آپ سے پہلے کے امامؓ زیادہ ظفر مند نظر آتے ہیں۔ فرمایا: ہم ان کے مشیر تھے، ہمارے مشیر تم ہو۔

حکمرانی ہی نہیں، زندگی کے کسی بھی میدان میں مشاورت کامیابی کی کلید ہو تی ہے۔ چن چن کر اکبر اعظم نے ہندوستان کی سر زمین سے ہیرے جمع کئے تھے۔ نو آدمی جنہیں نورتن کہا جاتا ہے۔ خود ان پڑھ مگر حافظہ بلا کا پایا تھا… اور بے حد انہماک Focused۔ دانش کی بات اچک لیتا۔ مغز لے لیتا اور چھلکا پھینک دیتا۔ ”خذ ما صفا ودع الکدر‘‘۔ اجالا اخذ کر لو اور باقی چھوڑ دو۔
عربوں کا قول یہ ہے: السعید من و عظ بغیرہ۔ سعید فطرت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت پائے۔

وزیراعظم کی تقریر کے تین نمایاں پہلو ہیں۔ اوّل یہ ادراک کہ جنگ کا جو بخار بھارت کو چڑھا ہے، ٹھنڈا پانی، اس پہ ڈالا جائے۔ ہلکے بخار کا علاج غسل میں ہوتا ہے۔ زیادہ ہو تو ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں پیہم رکھی جاتی ہیں۔ دہشت گردی پر مذاکرات کی دعوت دے کر، اس ہتھیار کو کند کر دیا، جو برہمن کے ہاتھ میں تھا۔ وبا کی طرح سارے میں پھیل رہا ہے۔ بات چیت کے لیے مدعو کر کے، عالمی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ثانیاً کشمیر کا کیس اجاگر کیا اور بہترین انداز میں۔ یہ کہ اقوام جب باغی ہو جائیں تو زمانہ کروٹ بدلتا ہے۔ ثالثاً جتلا دیا: اگر مہم جوئی کی تو اس کا جواب ملے گا اور فوراً… اینٹ کا جواب پتھر!
مسلمان کو‘ اگر وہ تھوڑا سا بھی مسلمان ہو، ایک برتری ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وہ جان دے سکتا ہے۔ موت اسے اس قدر ہراساں کبھی نہیں کرتی۔
ہندوستان میں جو کہرام برپا ہے، اس کا پورا اندازہ وہی کر سکتے ہیں، جو ہندو نفسیات سے آگاہ ہیں۔ خوف اس کی سرشت میں ہے۔موت کے ڈر سے بڑا کوئی ڈر نہیں۔
موصوف کچھ مسخرے سے تھے۔ مگر اپنی قوم کے بارے میں جوش ؔ نے جو کہا ، وہ حسنِ بیاں کا نمونہ ہی نہیں، برقرارصداقت بھی ہے۔ع
مقبروں میں نصب کرتے ہیں جو حوروں کے خیا
افغانستان کی مثال سے بہتر مثال نہ دی جا سکتی ۔ اگر ایک عالمی طاقت طالبان سے ہار گئی تو کشمیر میں مرجھائی بھارتی سینا کیا بھاڑ جھونکے گی۔ پندرہ برس سے پاک فوج حالتِ جنگ میں ہے۔ رزم گاہ نے صیقل کر ڈالا ہے۔
اندازہ یہ ہے: اوّل تو بھارت کوئی بڑی مہم جوئی نہ کرے گا۔ کرے تو نپا تلا جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کو تباہ کرنے کا آرزو مند خود بھی تباہ ہوگا۔
خوف کا توازن! جی ہاں خوف کا توازن ہی امن کی ضمانت ہوتا ہے۔ کتاب میں ارشاد یہ ہے: اپنے گھوڑے تیار رکھّو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے