جماعت الدعوۃ پر پابندی: حکومت بلیک لسٹ ہونے سے تو شاید بچ جائے لیکن باقاعدہ کارروائی ایک امتحان ہوگی

پاکستان کی حکومت نے دو سال سے زائد عرصے تک واچ لسٹ پر رکھی گئی دو تنظیموں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کو کالعدم تنظیموں میں شامل تو کرلیا ہے لیکن حکام کا کہنا تھا کہ ابھی تک ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں واضح ہدایات جاری نہیں کی گئیں ہیں۔

ان دونوں تنظیموں کا زیادہ تر اثر و رسوخ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے ٹیکٹا کی ویب سائٹ پر ابھی تک جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کو کالعدم تنظیموں میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کو کالعد م تنظیموں میں شامل کرنے کا فیصلہ 21 فرووی کو سویلین اور فوجی قیادت کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

ان دونوں تنظیموں کو سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں 27 جنوری سنہ2017 کو واچ لسٹ میں رکھا گیا تھا۔

جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کو کالعدم تنظیموں میں شامل کرنے کے بعد پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی تعداد 69 ہوگئی ہے جبکہ واچ لسٹ پر رکھی جانے والی تنظیموں کی تعداد دو ہے۔

شدت پسند تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہ کرنے اور ایسی تنظیموں کو ملنے والی مالی معاونت نہ روکنے پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کردیا تھا جس کے بعد اس وقت کی حکومت نے ان دونوں تنظیموں بلخصوص فلاح انسانیت کے زیر اہتمام چلنے والے فلاحی اداروں کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لینے اور ایڈمنسٹریٹیو مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت کی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی طرف سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ مذکورہ تنظیموں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق اس وقت ملک میں ہزاروں ایمبولنس کے علاوہ ڈسپنسریاں اور ٹینیکل تعمیلی ادارے فلاح انسانیت کے زیر انتظام چل رہے ہیں۔

کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید اور کالعدم جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق اسلام آباد کے علاوہ صوبہ پنجاب کے زیادہ تر شہروں میں فلاح انسانیت کے زیر اہتمام چلنے والے اداروں پر اگرچہ سابق حکومت میں نگراں مقرر کیے گئے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد عدالتوں سے ریلیف ملنے پر نہ صرف ایڈمنسٹرز کو ہٹا دیا گیا بلکہ ان اداروں میں ہونے والی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا بھی چھوڑ دیا گیا۔

[pullquote]اب باقاعدہ کارروائی ہوگی[/pullquote]

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق جب تک جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت جب واچ لسٹ میں شامل تھیں تو اس وقت تک محض ان کے امور کی نگرانی کی جارہی تھی اور خفیہ ادارے ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا رہا اور وہ اس بارے میں رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجواتے رہے ہیں۔

اہلکار کے مطابق خفیہ اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں ان دونوں تنظیموں کو کالعدم تنظیموں میں شامل کردیا گیا ہے اس لیے اب ان تنظیموں کے خلاف بھی اسی طرح کارروائی ہوگی جس طرح دیگر کالعدم تنظیموں اور گروپوں کے کارکنوں کے خلاف ہوتی ہے۔

اہلکار کے مطابق ان دونوں تنظیموں اور ان کے کرتا دھرتا افراد کے بینک اکاونٹس منجمند کرنےکے بارے میں کارروائی کی جائے گی اور اس ضمن میں سٹیٹ بینک کو واضح ہدایات جاری کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ان تنظیموں سے وابسطہ افراد کا نام بیلک لسٹ میں بھی شامل کیا جائے گا تاکہ وہ بیرون ممالک سفر نہ کرسکیں۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق یہ دونوں تنظیمیں بھی لشکر طیبہ سے ہی نکلی ہیں اور ان تنظیموں کو اس وقت سامنے لایا گیا جب لشکر طیبہ کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

بھارت اور پاکستان مخالف ممالک یہ الزام عائد کتے ہیں کہ ان تینوں تنظیمیوں کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق سابق دور حکومت میں ملی مسلم لیگ نامی جماعت کو الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت اس لیے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کے خفیہ اداروں نے یہ رپورٹ دی تھی کہ ملی مسلم لیگ کے پیچھے بھی وہی لوگ ہیں جو پہلے لشکر طیبہ اور پھر جماعت الدعوۃ میں شامل تھے۔

[pullquote]کارروائی اصل امتحان ہوگا[/pullquote]

شدت پسند تنظیموں کے معلامات پر نظر رکھنے والے عامر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان دونوں تنظیموں پر پابندی تو عائد کردی ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی اصل امتحان ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ پاکستان کی جو کمٹمنٹ ہے اس کے لیے پاکستان کو شدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔

کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی

اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت ان دونوں تنظیموں کے خلاف اب بھی کارروائی نہ کرتی تو اس بات کا امکان تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کردیتی۔

عامر رانا کا کہنا تھا کہ اگر حکومت فلاح انسانیت کے زیر انتظام چلنے والی ایمبولنس گاڑیوں اور دیگر رفاحی اداروں کو اپنی تحویل میں لے بھی لیتی ہے لیکن پھر بھی حکومت کے پاس یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ اس نظام کو چلا سکیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ حکومت ان دونوں تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے اداروں کو ایدھی یا اس جیسی فلاحی تنظیموں کو دے دے جن پر شدت پسند تنظیموں کی معاونت کرنے کا کوئی الزام نہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے