داعش کے بعد اب اور کون؟

چار سال قبل، جون 2014 میں ابو بکر البغدادی نے عراق اور شام میں خلافت کااعلان کیا۔اس گروہ نے اسلامی ریاست کا نام و نقشہ تبدیل کرتے ہوئے دیگر اسلامی گروہوں پر برتری حاصل ہونے کا دعوی بھی کر ڈالا۔جنسی غلاموں کی طرف سے، دہشت گردی کے حملوں کافروغ، یرغمالیوں کے سروں سے کھیلنا اس گروہ کا مشغلہ ،سوشل میڈیا پربھی چھایا رہا۔زیادہ تر تنقید کے نشتر برسائے گئے،اس اسلامی ریاست نے دنیا کو خوفزدہ اور پریشان کردیا۔

اس گروہ کے نمودار ہونے سے امریکہ میں دہشت گردی کا خوف مزید پھیلا،ڈونالڈ ٹرمپ کے صدارتی مہم کو فروغ دینے میں مدد ملی۔ابتدائی دنوں میں یہ گروپ چھایا رہا،مگر آج صورتحال اس سے مختلف ہے، اس کے آخری علاقے میں امریکہ کی حمایت شدہ کردش فورسز نے قبضہ جمایا ہواہے،کوئی شک نہیں داعش جہادی گروہوں کے لئے ایک آفت بن کر آئی ، اس خود ساختہ خلافت نے عرب ، یورپ، اور شرق اوسط سے ہزاروں رضاکاروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جہادیوں کا روپ دھارا۔مقامی کسانوں کو استعمال کیا اور ان کی مصنوعات کو فروخت کیا، تیل کے ذخائر کو اپنے کنٹرول میں کیا،عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بلیک مارکیٹ کے ذریعے بھونچال پیدا کیا،نوجوان لڑکیوں کو بھرتی کیا گیا ۔جو نوجوان مردوں کو لڑنے کے لئے قائل کرتیں یوں محدود وسائل سے چند مہینوں میں مضبوط فوج تیار کر لی گئی۔

اس اسلامی ریاست نے سالانہ 800 ملین ڈالرٹیکس وصول کیا۔خلافت کی ابتدائی کامیابی کا سبب یہ تھا کہ یہ عرب دنیا کے دل میں تھی اور شام میں خانہ جنگی عالمی توجہ کا مرکز تھی۔ صومالیہ، یمن اور قفقاز جیسے ملکوں کی جہادی تنظیموں کے برعکس ،اس گروہ کو اہم سمجھا جانے لگا۔دوسرے ممالک میں، 9/11 کے بعد مقامی سطح پر جہادیوں نے جب بھی سراٹھانے کی کوشش کی ، امریکہ اور اس کے اتحادی ان کے خلاف ایکشن کے لیے سر جوڑلیتے ۔عراق، سومالیا، یمن، اور دیگر ممالک میں علاقائی حکومتیں جب بھی جہادیوں کیخلاف سیز فائر پہ آمادگی ظاہر کرنے لگتیں امریکی امداد، ڈرون حملے، اور دیگر اقدامات نے انہیں واپس دھکیل دیتے ۔

شام میں، بشارالاسد کے حامیوں کی نسل کشی جاری تھی ،بشارلاسد کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ امریکہ انہیں ریسکیو نہیں کرنے دے رہا بلکہ لگاتار ان کے حامیوں پر بمباری کر رہا ہے ۔جس کے بعد باراک اوبامہ انتظامیہ اور ان کے اتحادیوں نے بشارلاسد سے مذاکرات کیے ،اسلامی ممالک نے خلافت کے خلاف جنگ کرنے کی کوششیں کیں، اس کے کئی کارکنوں اور پروپیگنڈوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں جنگی فوجی ہلاک ہوئے ۔وہ بہادر اور زبردست تھے مگرخلافت کو ختم نہ کرسکے ،تاہم یہ لگنے لگا کہ ایک معروف جہاد گروپ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج پر حاوی ہو جائے گا ۔

یہ بھی سچ ہے ،اللہ کا قانون سپریم ہے ،کوئی بھی طاقت راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتی جب تک اوپر والے کی رضا شامل نہ ہو مگر یہ گروہ صرف جہاد کے نام کا ٹیگ استعمال کر رہا تھا ،جس خلافت کو ڈھنڈورا پیٹا گیا اتنا جلدی تو اسامہ بن لادن نے خلافت کی خواہش نہ کی ہوگی ،اسامہ خلافت کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے ،اسامہ بن لادن نے ہمیشہ خلافت کو آخری مقصد کے طور پر دیکھا۔وہ ایسے سوچ اس لیے بھی رکھتا تھا کہ ایسا کرنا امریکی قہر کو مزید بڑھاوا دے گا، اسامہ بن لادن عقلمند تھا،ہر فیصلہ سوچ سمجھ کے اٹھاتا۔

پس منظر پہ غور کریں تو ابتداء میں عراقی مسلمانوں کی جہادی تنظیم انصار الاسلام نے امریکی حملے کے خلاف مزاحمت شروع کی بصرہ میں عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے مہدی آرمی تشکیل دی، کچھ عرصہ مزاحمت جاری رہی ، بعد یہ تنظیم پیچھے ہٹ گئی۔ جس کی وجہ ایران و امریکہ کے درمیان وہ خفیہ معاہدہ تھا،معاہدہ کی رو سے امریکہ نے عراق میں ایران نواز حکومت کے قیام کا وعدہ کیا تھا ۔ ایران اپنے پڑوس کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا، اس معاہدے کے بعد مقتدیٰ الصدرمزاحمت چھوڑ گئے اور آیت اللہ السیستانی فکری رہنما قرار پائے۔ اس عرصے میں سنی اکثریتی علاقوں خصوصا انبار، موصل، تکریت، فلوچہ اور بغداد میں امریکی مزاحمت میں شدت آنے لگی، انہی دنوں ذرائع ابلاغ میں ایک اردنی شخص ابو مصعب الزرقاوی کا نام ابھرنے لگا، ابو مصعب الزرقاوی کا تعلق اردن کے علاقے زرقا سے تھا، ابو مصعب اردن کی جیل میں بھی رہا اوررہائی کے بعد دوبارہ افغانستان پہنچ گیا،یہ نوے کی دہائی کے آخری برس تھے۔

افغانستان پر امریکی حملے کے وقت ابو مصعب الزرقاوی افغانستان میں تھا،بعد میں جب عراق پر حملہ ہوا تو ابو مصعب نے وہاں کا رخ کیا ابو مصعب کی صلاحیتیں کھل کر عراق میں سامنے آئیں اور وہاں انہوں نے التوحید الجہاد کے نام سے اپنا مجموعہ منظم کیا ،بہت سے علاقوں میں القاعدہ براہ راست اپنے نام سے کام نہیں کرتی، ابو مصعب نے دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے میدان میں کھلبلی مچادی امریکی و عراقی انٹیلی جنس کیلئے یہ شخص چھلاوہ بن چکا تھا۔

اسے گرفتار کرنا انکا خواب تھا، انتہائی مختصر وقت میں ابو مصعب نے ایک ہزار خودکش حملے منظم کئے اور جہادی حلقوں میں امام الستشہادین کا خطاب پایا، اسی دوران ابو مصعب نے اسامہ بن لادن کی بیعت کرتے ہوئے خود کو تنظیمی طور پراسامہ کے احکامات کا پابند کردیا اور یوں بلاد الرافدین میں القاعدہ عراق کا نیا روپ سامنے آگیا ۔اسکے کچھ عرصے بعد عراق میں شوری مجاہدین تشکیل دی گئی اور کم و بیش بارہ جہادی تنظیمیں اسمیں شامل ہوگئیں اب تمام فیصلے ایک متفقہ فورم پہ ہونے لگے۔ ابو مصعب الزرقاوی امریکی بمباری کا نشانہ بنے، ابو مصعب الزرقاوی کے بعد تنظیمی معاملات میں خرابی پیدا ہونے لگی اورسنی قبائل کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں القاعدہ یا دولت اسلامیہ عراق کی گرفت کمزور ھونے لگی، القاعدہ کیلئے یہ صورتحال بالکل بھی پسندیدہ نہ تھی یہاں تک کے نور المالکی کا اقتدار مستحکم ہونے لگا۔

کچھ عرصے کے تنظیمی بحران کے بعد ابوعمرالبغدادی نے دولت اسلامیہ امارت کی کمان سنبھالی جبکہ ابو حمزہ المہاجر اس ریاست کے وزیر حرب قرار پائے ۔ پہلے ابو عمر البغدادی اور پھر دوسرے امیر ابو حمزہ المہاجر عراقی فورسز کا نشانہ بنے، یہ نیا بحران تھا دولت اسلامیہ پھر مشکلات کا شکار تھی اس دوران کچھ سنگین غلطیوں کی وجہ دولت اسلامیہ کمزور پڑتی چلی گئی ۔جسکی بہت سے وجوہات میں ایک سنی قبائل سے تصادم بھی تھا، لیکن نوری المالکی کی متعصب حکومت دولت اسلامیہ کے دوبارہ بحالی کا سبب بنی۔ سنی مسلمان نوری المالکی کی فسطائیت پرمبنی طرز حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ،دولت اسلامیہ کا نیٹ ورک موجود تھا تجربہ کار افراد کی بھی کمی نہ تھی ایسے میں سنیوں کی واحد پناہ گاہ دولت اسلامیہ قرار پائی جو بہت تیزی سے اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہی تھی، دولت اسلامیہ امارات اب ابراہیم عواد کے پاس تھی جنہیں آپ اور ہم ابو بکرالبغدای قرشی حسنی کے نام سے جانتے ہیں ۔

البغدادی کی پیش قدمی حیران کن تھی سنی شہروں کا کنٹرول سنبھالنے میں انہیں مقامی قبائل کی مکمل حمایت حاصل رہی، ان علاقوں کے سارے بینک بمعہ ڈالرز اور سونے کے دولت اسلامیہ کے قبضے میں آچکے تھے،امریکہ کے حساب سے یہ انتہائی خوفناک صورتحال تھی جس آٹھ لاکھ آرمی کو کئی ارب ڈالرز دیکر تیار کیا گیا اسکا یوں پیچھے ہٹنا انتہائی پریشان کن تھا، انہی دنوں بشار الاسد کے خلاف شام میں عوامی تحریک شروع ہوچکی تھی ،یہ وہی خون آلود عرب جنگ تھی جو مصر و یمن اور شام میں لاکھوں انسانوں کا خون پی چکی ہے، مصر لیبیاء یمن اور شام کی صورتحال سے پاک افغان سرحد پر موجود القاعدہ قیادت کیسے لاتعلق رہ سکتی تھی۔جبہ النصر کے امیر ابو محمد الاجولانی کو دولت اسلامیہ کے خلیفہ ابوبکر البغدادی نے شام بھیجا تھا ۔ کچھ عرصے بعد عراق میں کامیاب کاروائیوں کے بعد دولت اسلامیہ نے شام کا رخ کیا یہیں سے القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے ،القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری نے دولت اسلامیہ کو حکم دیا کہ وہ شام کے بجائے عراق تک محدود رہے ۔لیکن دولت اسلامیہ نے ایسی تجویز یا حکم ماننے سے انکار کردیا۔

صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی تھی آپسی تصادم بھی شروع ہو چکا تھا القاعدہ جانتی تھی کہ داعش کے سربراہ اگلے مرحلے میں خلافت کا اعلان کرنے والے ہیں۔ القاعدہ کی کوشش تھی کہ داعش کو ایسے کسی اعلان سے روکا جائے، دولت اسلامیہ کا شام کی صورتحال کے حوالے سے اپنا موقف تھا۔

جس کے مطابق وہ ایسی جہادی تنظیموں جیسا کہ جیش الحر یعنی فری سیرین آرمی کے سخت خلاف تھی ،جو سعودی عرب یا یورپ و امریکہ کے تعاون سے یہاں موجود تھے۔ یہی وجہ تھی جو دولت اسلامیہ اور وہاں موجود گروہوں کے درمیان خونریز تصادم ہوا ،باوجود اسکے کے القاعدہ نے متعدد کوششیں کیں کہ تصادم کی نوبت نہ آئے ، توجہ بشار الاسد کیطرف ہی رہے لیکن ایسا ہو نہ ہوسکا ،بعد ازاں ایرانی معاونت سے کئی اہل تشیع گروہ جس میں حزب اللہ بھی شامل تھی، دولت اسلامیہ اور جبہ النصر سے لڑتی رھی حزب اللہ یہاں بشار الاسد کی حمایت میں لڑ رہی تھی اسی دوران دولت اسلامیہ نے اپنی ریاست کو شام تک توسیع دیتے ہوئے ابوبکر البغدادی کی خلافت کا اعلان کردیا، خلافت کی داعی حزب التحریر اور القاعدہ نے اس اعلان سے اختلاف کیا اوراس سلسلے میں کچھ اعتراضات پیش کئے القاعدہ کا موقف تھا کہ یہ اعلان جلد بازی میں کیا گیا ہے ۔

کچھ بنیادی اصولوں سے انحراف کیا گیا ، داعش نے ایسے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے خود کہا کہ وہ تمام شرائط پر پورا اترتے ہیں ،اس حوالے سے القاعدہ اور داعش کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر بحث جاری رہی، اسی دوران امریکہ یورپ سعودی عرب اور ایران نے مشترکہ طور پر داعش پر حملے شروع کردئے، ایسے میں القاعدہ نے امریکی حملوں کی مزاحمت کا اعلان کیا اسی دوران القاعدہ اور داعش کے درمیان یمن کی القاعدہ اور علماء کے توسط سے مذاکراتی عمل شروع ہو چکا ہے ، لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہ آسکی،البتہ آپس کا تصادم کسی حد تک رک چکا ہے۔

اسلامی ریاست اور القاعدہ کے نظریات کی اپیل مضبوط ہے، اور مغرب میں چھوٹے پیمانے پراب بھی پیروکارموجود ہیں جوشاید تلواراٹھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں،لیکن آج 2014 کے مقابلے میں خطرہ کم ہے اور پالیسی سازوں کو تسلیم کرنا چاہئے کہ انہوں نے جزوی کامیابی حاصل کر لی ہے شاید یہی وجہ ہے امریکہ اب تمام ممالک سے اپنی افواج واپس بلانے کی حکمت عملی اپنا رہا ہے ،تاکہ معاشی خسارہ کم کرکے معیشت پر توجہ دے سکے ۔اب جنگیں ہتھیاروں کی بجائے معاشی استحکام اور ان سے منسلک پروپیگنڈوں پر آ رکی ہیں۔امریکہ سابقہ جنگوں میں خطیررقم خرچ کرکے اپنے مقاصد پورے کرتا رہا ہے مگر دنیا بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی ،اسے کئی طاقتوں کا سامنا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے