کون سا ضمیر؟

میں نے اپنے دوست ضمیر حسین کو فون کرنے کے لئے نمبر گھمایا، دوسری طرف سے ریسور اٹھائے جانے پر میں نے کہا ’’ہیلو ضمیر صاحب ہیں؟‘‘

’’ضمیر؟ کون سا ضمیر! یہ ایک پولیس افسر کا گھر ہے‘‘ اور یہ کہہ کر فون بند کر دیا گیا۔ میں نے دوسری دفعہ نمبر گھمایا ’’ہیلو ضمیر صاحب ہیں؟‘‘

بھائی صاحب آپ گھاس تو نہیں چر گئے۔ یہ ایک بزنس مین کا گھر ہے یہاں کوئی ضمیر ومیر نہیں ہے۔اب کے میں نے ڈرتے ڈرتے نمبر گھمایا اور دل میں دعا کی کہ یا خدا! ضمیر صاحب سے بات ہو جائے۔ اس دفعہ ایک عالم دین نے فون اٹھایا ’’لاحول ولا قوۃ۔ ایک تو رانگ نمبروں نے تنگ کیا ہوا ہے۔ ارے میاں یہاں ضمیر کہاں سے آ گیا؟ یہ مولوی سرکار علی کا گھر ہے‘‘۔

اگلی دفعہ نمبر ایک صحافی کے ہاں جا ملا۔

میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ نمبر غلطی سے نہیں ملا۔ آپ لوگ ضمیر ضمیر کی دہائی دے کر چاہتے ہیں کہ ہم لوگ بھوکوں مر جائیں۔ اگر آپ نے آئندہ فون کیا تو مجھے پولیس کو رپورٹ درج کرانا پڑے گی۔ میں نے گھبرا کر فون بند کر دیا۔

میں نے سوچا لائن میں خرابی ہے، اس طرح خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ دیر انتظار کر کے فون کرنا چاہئے۔ چنانچہ قریباً ایک گھنٹے بعد میں نے دوبارہ فون ملایا۔ ہیلو ضمیر صاحب ہیں؟

جی ہاں ہیں! فرمایئے۔

جی ذرا ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

بھائی ضمیر کی باتیں اس طرح فون پر طے نہیں ہوا کرتیں۔ آپ کبھی گھر تشریف لایئے۔

اگلی دفعہ ایک صاحب اقتدار کے ہاں جا ملا۔ ’’ضمیر صاحب ہیں؟‘‘

’’آپ کو آج ضمیر کی یاد کیسے آ گئی‘‘ میں بہت خوش ہوا کہ اس دفعہ نمبر صحیح مل گیا ہے۔ ’’ہم اپنے ضمیر کو بھولے تو کبھی نہیں البتہ اس دوران دنیا داری کے دھندوں سے فرصت نہیں ملی‘‘۔

’’تو جہاں اتنے برس دنیا داری کے دھندوں میں آپ کو ضمیر یاد نہیں آیا مزید آئندہ کچھ عرصہ اس بے چارے کو زحمت نہ دیں‘‘۔

یہ سن کر میں چونکا۔ گویا دوسری طرف ضمیر صاحب نہیں ہیں۔

’’آپ ضمیر صاحب نہیں ہیں؟‘‘

’’دیکھو میاں! یہاں کوئی ضمیر نہیں ہے اگر تم کوئی سیاسی آدمی ہو تو کھل کر بات کرو ورنہ بند کر دو یہ رانگ نمبر ہے۔‘‘ اور پھر رانگ نمبر پر میں نے انکم ٹیکس، ایکسائز، بلدیہ، اسپتال، تعلیم اور اللہ جانے کن کن شعبوں کے افراد سے بات کی۔ ایک پیر صاحب سے بھی بات ہوئی مگر ہر ایک نے ضمیر کا سن کر ٹیلی فون بند کر دیا اس دوران میں نے ایک نسوانی آواز بھی سنی۔

’’آپ ہم پر طنز کر رہے ہیں۔ ہم آپ لوگوں سے زیادہ باضمیر ہیں۔ ہم لوگ رشوت نہیں لیتے چوری نہیں کرتے، اسمگلنگ نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ تو آپ لوگ کرتے ہیں اور پھر ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہم تو نذر نیاز بھی دیتے ہیں۔ درگاہوں پر بھی جاتے ہیں، محرم کا بھی احترام کرتے ہیں۔ آپ لوگ کیا ہیں؟ ضمیر۔ جب کسی کی جیب میں پیسہ نہ ہو وہ ہمارے ساتھ ضمیر ہی کی بات کرتا ہے۔ مفت کے چسکے لیتے رہتے ہیں۔ بند کرو فون، یہ گاہکی کا وقت ہے‘‘۔ اگلی بار فون ایک سر پھرے نے اٹھایا اور کہا ’’تم کیا ہر وقت ضمیر ضمیر کرتے رہتے ہو۔ سب ضمیر کی بات کرتے ہیں مگر اس کے لئے کوئی قربانی نہیں دیتا۔ تم بھی انہی لوگوں میں سے ہو۔‘‘

اس کے بعد پھر میں نے ضمیر حسین کو فون کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور اب آخر میں باکمال شاعر عباس تابش کی ایک غزل جو میری پسندیدہ ہے:۔

[pullquote]طرحی غزل[/pullquote]

عشرۂ عشق میں آنکھوں سے جدا ہوتے ہیں

غم گرفتہ اسی موسم میں رہا ہوتے ہیں

یہ ترے شہر میں آ کر ہمیں اندازہ ہوا

یہاں انسان نہیں صرف خدا ہوتے ہیں

پہلے کرتے تھے محبت بھی عبادت کی طرح

اب نمازوں کی طرح لوگ قضا ہوتے ہیں

ان سے ملنا تو میاں پائوں جما کر ملنا

شہر کے لوگ سمندر کی ہَوا ہوتے ہیں

زندگی تُو تو برہنہ سی برہنہ نکلی

ہم سمجھتے تھے ترے بندِ قبا ہوتے ہیں

کہاں ہوتے ہیں وہ قرآن کے دل جیسے لوگ

مرض الموت میں جو وجہِ شفا ہوتے ہیں

چاٹ جاتا ہے انہیں بھی کوئی دیمک کی طرح

خونی رشتے بھی سلیماں کا عصا ہوتے ہیں

کوئی کیسے ہمیں باتوں میں لگا کر لے جائے

ہم تو اے دشت ترے آبلہ پا ہوتے ہیں

دن تو مزدوریٔ دنیا میں گزر جاتا ہے

شام کے بعد سرِ فلکِ سبا ہوتے ہیں

تجھ پہ مرنے کے علاوہ بھی کوئی مرنا ہے

کیا ترے چاہنے والے بھی فنا ہوتے ہیں

قامتِ یار سے پہلے میں یہی سوچتا تھا

کیسے ہوتے ہیں وہ نالے جو رسا ہوتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے